شرمندگی
دلشاد اور عارفہ کی محبّت انتہائی خاموشی اور رازداری سے پروان چڑھ رھی تھی ۔ ابھی تک انہوں نے اس معاملے میں صرف ایک ھی انسان کو رازدار بنایا تھا، اور وہ عارفہ کی ھی قابل بھروسہ سہیلی تھی ، جس کا نام شکیلہ تھا۔ یہ وھی سہیلی تھی ، جو شروع دن سے ھی عارفہ کے ساتھ دلشاد کے پاس آ رھی تھی ۔ ( میں اور اکرم بعد میں دلشاد کے ھمراز بنے تھے، جب کافی عرصے بعد عید پر گاؤں میں، ھماری مشترکہ ملاقات ھوئی تھی۔ ) وہ دونوں یہ سمجھتے تھے، کہ وہ اپنی محبّت کو گاؤں میں ھر کسی سے چھپانے میں کامیاب ھیں، مگر یہ ان کی غلط فہمی تھی ۔ وہ نہیں جانتے تھے ، کہ ان کو ملتے ھوئے کئی آنکھیں دیکھ رھی تھیں۔ ایک گاؤں میں رھتے ھوئے اپنی محبّت کو چھپانا بہت مشکل ھو جاتا ھے، خصوصاْ اس وقت جب آپ اپنی معشوقہ سے ھر دوسرے تیسرے دن باھر کہیں پر ملتے بھی ھوں۔ ) دلشاد اور عارفہ اب اکثر ھی ملنے لگے تھے۔ دلشاد اپنے کھیت میں کام کرتا رھتا، اور عارفہ اپنے گھر سے پھل کھانے کے بہانے نکل آتی ۔ یوں نہ صرف ان دونوں کو ایک دوسرے کا دیدار انتہائی آسانی سے میسّر آ جاتا ، بلکہ وہ دونوں دلشاد کے کھیت میں کہیں نہ کہیں چھپ کر ملاقاتیں بھی کر لیتے تھے۔ البتّہ کسی دن جب عارفہ لیٹ ھو جاتی، یا عارفہ کے آنے پر دلشاد کا باپ بھی کھیت میں موجود ھوتا ، تو وہ اپنی آنکھوں کی پیاس دور دور سے ھی بجھانے پر اکتفا کرتے، لیکن اس دن وہ دونوں ھی بہت بے چین رھتے ۔ دلشاد کی حالت اس انداز میں خراب ھوتی تھی ، کہ وہ پھر کھیت میں کام ھی نہ کرپاتا۔ اور گھر چلا جاتا ، لیکن گھر آ کر بھی وہ بے سکونی محسوسی کرتا رھتا ۔ یہی حال عارفہ کا بھی ھوتا ۔ بلکہ وہ تو اپنے فطری غصّے کے باعث کچھ زیادہ ھی اس بات کا اثر قبول کرتی ۔ جس دن ان دونوں کی ملاقات ھوا کرتی، وہ دن ان دونوں کے لئے عید سے کم نہ ھوتا۔ عارفہ ھر روز ھی اپنے آپ کو سجا سنورا کر کھیتوں کا رخ کیا کرتی تھی۔ وہ یہ سب دلشاد کے لئے ھی کرتی تھی، اور دلشاد بھی اس سے ملنے کے دوران اس کے ھونٹوں کی سرخی چٹ کر جاتا تھا۔ یہی نہیں ، بلکہ آھستہ آھستہ دلشاد اور وہ ایک دوسرے کے جسم کی بھوک اپنے اندر محسوس کرنے لگے تھے۔ یہ اور بات، کہ ابھی تک انہوں نے ابھی تک کوئی بڑی غلطی نہیں کی تھی۔ معاملہ ابھی تک اس حد تک گیا تھا، کہ چند ماہ میں دلشاد نے عارفہ کے ھونٹ اور چہرے کے علاوہ صرف ممّے ھی چند ایک بار دیکھے اور چوسے تھے۔ دلشاد مزید پیش قدمی بھی کرنا چاھتا تھا، مگر عارفہ کسی نہ کسی طرح سے اسے ٹال جاتی۔ وہ اسے کہتی تھی، کہ یہ سب کام شادی کے بعد کے ھیں، جنہیں شادی سے پہہلے انجام دینا کسی طور بھی مناسب نہیں ھے۔ دلشاد کو بھی مجبوراْ عارفہ کی بات ماننا پڑتی، کہ وہ بھی عارفہ کو ناراض کر کے ایک خوبصورت لڑکی کا ساتھ گنوانا نہیں چاھتا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ عارفہ اس سے ناراض ھو ھی نہیں سکتی تھی، کہ اسے تو دلشاد سے حقیقی عشق ھو چکا تھا۔ اور وہ جو کچھ بھی کرتی تھی، اپنی خوشی سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف اپنے محبوب ، دلشاد کی خواھش کے احترام میں کرتی تھی۔ عارفہ دلشاد کے معاملے میں شروع دن سے ھی سنجیدہ تھی۔ اگر کبھی ان کی ملاقات نہ ھو پاتی، تو وہ اس سے ملے بغیر جاتے ھوئے اتنی پریشان ھو جایا کرتی، کہ اکثر واپسی پر گھر پہنچتے پہچنتے اس کی آنکھیں رو رو کر سرخ ھو جاتیں ۔ وہ دلشاد سے ملنے کا ارادہ باندھ کر ایک بار جب گھر سے نکل آتی تھی ، تو پھر اس کے بعد، دلشاد سے ملے بغیر گھر جانا اسے کسی طور قبول نہ تھا ۔ ۔ اس کی سہیلی شکیلہ اس کی اس کیفیّت کو بہت گہرائی سے نوٹ کرتی چلی آ رھی تھی ۔ ابتدا میں تو اس نے عارفہ سے اس بارے میں کچھ خاص بات نہ کی ، لیکن جب اس نے دیکھا ، کہ دلشاد سے ملاقات میں ناکام رہنے پر ھر بار وہ حد سے زیادہ آؤٹ آف کنٹرول ھو جاتی ھے ، تو اس نے عارفہ کو سمجھانا شروع کر دیا ۔ اس کے مطابق عارفہ کو ھر حال میں اپنا آپ قابو میں رکھنا چاھئے ۔ اسے اپنے کسی بھی انداز سے یہ محسوس نہیں کروانا چاھئے ، کہ اس کی عادات میں کسی قسم کی کوئی بھی تبدیلی رو نما ھو چکی ھے ، اور اس کے اندر کسی قسم کے جذبے نے پرورش پانا شروع کر دی ھے ۔ ورنہ اگر کسی طرح سے اس کے باپ کو معلوم پڑ گیا، تو عارفہ کے لئے تو یہ سب خطر ناک ھو گا ھی، مگر دلشاد کے لئے تو یہ بے حد خطر ناک ھو گا۔ اس کی نصیحتوں کے جواب میں عارفہ محبّت کرنے والوں کے سے انداز میں اوٹ پٹانگ باتیں کرنا شروع کر دیتی۔ کبھی وہ شکیلہ کو محبّت سے نابلد قرار دیتی ، تو کبھی وہ اپنی کیفیّت کو محبّت کا ھی ایک رنگ قرار دیتی ۔ ھاں ، البتّہ کبھی کبھی وہ مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ھوئے اپنی اس بے بسی پر اداس بھی ھو جاتی تھی ، اور اس کے گلے لگ کر رو دیتی ۔ شکیلہ اس وقت اسے انتہائی پیار سے سمجھاتی رہتی ، اور ساتھ ساتھ اس کا حوصلہ بھی بڑھاتی رھتی ۔ شکیلہ تقریباْ ھر ملاقات میں ھی ان کے معاون کے طور پر موجود رھتی ۔ ایک آدھ بار ھی ایسا ھوا تھا ، جب عارفہ شکیلہ کے بغیر آئی تھی ، مگر اس دن اس نے کسی اور سہیلی پر بھروسہ کرنے کی بجائے اکیلے آنا مناسب سمجھا تھا۔ شائد گاؤں میں ھونے والے چند واقعات اسے معلوم تھے ، جن میں دو خاموش محبّت کرنے والوں کے راز کو ان ھی کے بھروسہ مند راز دانوں نے کسی نہ کسی صورت اگل دیا تھا ۔ عارفہ ھر قدم انتہائی پھونک پھونک کر رکھ رھی تھی ۔ وہ کسی بھی عام سہیلی پر اعتماد کرنے پر تیّار نہ تھی۔ اس کی اسی احتیاط کی وجہ سے وہ ابھی تک گاؤں میں ھر کسی کا موضوع گفتگو بننے سے بچے ھوئے تھے۔ جن چند افراد کو معلوم ھوا بھی تھا، وہ چوھدری سے اس قدر خوفزدہ تھے، کہ کسی کے سامنے بات کرتے ھوئے ھی ان کی جان جاتی تھی، کہ معاملہ چوھدری کی بیٹی کا تھا۔ یوں، عارفہ اور دلشاد ابھی تک کسی بڑے خطرے سے محفوظ چلے آ رھے تھے۔ ************************************************** *************** ایک دن دلشاد کو کھیت میں کام کاج کے دوران ایک لڑکی ملی ۔وہ لڑکی بھی گاؤں ھی کی رھنے والی تھی، اور اس کے کردار کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں بھی گاؤں میں گردش کرتی رھتی تھیں۔ اس کا نام شہزادی تھا ۔ کہنے والے کہتے تھے ، کہ شہزادی جب بھی کسی مرد کو اکیلا پا لیتی، تو اپنی اداؤں سے اس کو رجھاتی تھی۔ ایک مرد کی رال کسی لڑکی کے رجھانے پر اسی طرح ٹپکتی ھے، جیسے خربوزے کے ھرے بھرے اور لاوارث کھیت کو سامنے دیکھ کر ایک گیدڑ کی رال ٹپکتی ھے۔ اس طرح سے وہ مردوں کو چند منٹ کی جسمانی تسکین فراھم کر کے بدلے میں ان سے جو کچھ بھی ملتا ، لے لیتی ۔ یوں اس کا چسکا بھی چلتا رھتا ، اور گھر کی دال روٹی بھی ۔ لیکن اس نے آج تک کبھی کسی کو مفت میں سیراب نہیں کیا تھا ۔ شہزادی ایک قبول صورت لڑکی تھی، لیکن غریبی اور لا پروائی سے رہنے کی عادت نے اس کے حسن کو گہنا دیا تھا ۔ اوپر سے گاؤں کے گردو غبار سے اٹے ھوئے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے اس کی باقی ماندہ صاف رنگت بھی بالکل ھی ماند پڑگئی تھی ۔ شہزادی کی عادتیں اور کردار کی کمزوری اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود تھی، کہ شہزادی نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی تھی ، اور اپنے گھر کے کسمپرسی کے حالات سے تنگ آ کر اس نے ھوش سنبھالتے ھی اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ لیکن اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، سوائے اس کے ، کہ اپنے جسم کو ھی ھتھیار کے طور پر استعمال کرے ۔ اسی وجہ سے وہ اس کام پر لگ گئی تھی ۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ سخت گرمی پڑ رھی تھی۔ اور اس موسم میں اس وقت، شہزادی دلشاد سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ھی موجود تھی ۔ دلشاد نے جب اسے دیکھا، تو اس کے دماغ میں وہ کہانیاں گونجنے لگیں، جو اس نے اس کے کردار کے حوالے سے سن رکھّی تھیں۔ اس نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ اسے دور دور تک کوئی آدمی دکھائی نہیں دے رھا تھا۔ اگر کوئی اپنے کھیت میں موجود بھی تھا، تو کسی درخت کے سائے میں لیٹا آرام کر رھا تھا۔ دلشاد اس وقت اپنے کماد کو پانی لگا رھا تھا، اور اسی وجہ سے وہ ابھی تک اپنے کھیت میں موجود تھا، ورنہ تو وہ بھی اس وقت تک گھر چلا جایا کرتا تھا۔ اس کی چھٹی حس نے اسے جیسے خبر دار کیا۔ دلشاد نے کچھ سوچتے ھوئے شہزادی کو اشارے سے پوچھا۔ جواب میں شہزادی اس کے پاس آ گئی۔ دلشاد اور بھی محتاط ھو گیا ۔ دلشاد نے شہزادی کی حرکتوں اور اس کے انداز سے اندازہ لگا لیا، کہ وہ آج پھر اپنے ممکنہ شکار کی تاڑ میں ھے، اور دلشاد پر اس کی نیّت ٹھیک نہیں ھے۔ دلشاد نے بھی اپنے اندر ایک مضبوط ارادہ کر لیا، کہ وہ کسی طور بھی شہزادی کے جال میں نہیں پھنسے گا۔ اور اگر اس نے شور مچانے کی دھمکی دی، تو وہ خود ھی ارد گرد سے کسانوں کو اکٹھّا کر لے گا۔ اسے قوی امّید تھی، کہ شہزادی اپنی دعوت گناہ پر دلشاد کا انکار سن کر اگر اس پر کسی قسم کا کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتی، تو گاؤں والے اور کھیتوں میں موجود کسان، شہزادی جیسی لڑکی کے مقابلے میں یقیناْ دلشاد کو زیادہ معتبر خیال کرتے۔ دلشاد نے اپنے طور پر شہزادی کو انکار کا مصمّم ارادہ کر لیا تھا، لیکن جب شہزادی نے اس سے بات شروع کی، تو دلشاد ایک دم سے کانپ گیا ۔ شہزادی نے سیدھا عارفہ کا نام لے کر بات شروع کی تھی ۔ دلشاد نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ھوئے عارفہ کا نام سن کر لا علمی کا اظہار کیا، کہ وہ اس نام کی کسی لڑکی کو نہیں جانتا ۔ لیکن شہزادی نے بھی پکّا کام کیا ھوا تھا۔ اس نے دلشاد سے کہا، کہ وہ نہ صرف ان کو کئی دنوں سے ملتے ھوئے دیکھ رھی تھی، بلکہ اس نے ایک گواہ بھی بنا لیا تھا۔ گویا دلشاد اور عارفہ کی ملاقاتوں کا احوال شہزادی کے علاوہ کسی اور کو بھی معلوم تھا۔ دلشاد پہلے تو انکار پر قائم رہا، لیکن جب شہزادی یہ کہ کر جانے لگی، کہ وہ پھر چوھدری کے پاس جا رھی ھے، اور شام کو اس سے چوھدریوں کی چوپال پر ھی ملاقات ھو گی، تو دلشاد کی سانس خشک ھو گئی۔ اس کی آنکھون کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ پردہٴ تصوّر پر اس نے اپنے آپ کو چوھدری کے کتّوں کے سامنے پڑے ھوئے پایا، جسے چوھدری کے کتّے بڑی بے رحمی سے بھنبھوڑ رھے تھے۔ یہ تصوّر کرتے ھی وہ جھنجھنا اٹھّا۔ اس نے بھاگ کر شہزادی کو روکا، اور اس کی منّت کرتے ھوئے روک لیا۔ شہزادی مسکرا دی، اور دلشاد کو جپھی ڈالنا چاھی، مگر دلشاد ایک دم سے پیچھے ھٹ گیا۔ شہزادی دوبارہ مسکرا دی ۔ اس نے دلشاد سے کہا، کہ اگر وہ اس کے جسم اور حسن سے مستفید نہیں ھونا چاھتا، تو اس کی مرضی۔ ساتھ ھی اس نے رازداری کے بدلے میں دلشاد کو اپنی جیب مین موجود ساری رقم شہزادی کو دینے کا حکم دیا، مزید ستم یہ کہ، اس نے دلشاد کو ڈھائی من گندم اپنے گھر میں پہنچانے کا حکم دیا۔ دلشاد نے پیسے تو دے دئے، مگر گندم والی بات پر پس و پیش سے کام لینا چاھا، لیکن شہزادی اپنی بات پر بضد رھی۔ آخر دلشاد کی منّت سماجت، اور کئی منٹ کی تکرار کے بعد، شہزادی ایک من گندم پر مان گئی۔ گندم دلشاد نے اس کے گھر میں آج رات کو پہنچانا تھی۔ شہزادی نے دلشاد کی الجھن دور کرنے کے لئے اس کو بتا دیا تھا، کہ اس کا بوڑھا باپ دو دن کے لئے گاؤں سے باھر گیا ھوا ھے، اور اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کے سامنے اس کو کوئی مسئلہ نہیں ھو گا۔ رہی اس کی ماں، تو وہ خود شہزادی کے ھر کام میں اس کی حامی اور خاموش مدد گار تھی۔ دلشاد اپنی فطری بزدلی کے باعث شہزادی کے پہلے ھی وار میں پسپا ھو گیا تھا۔ اگر اس وقت وہ ذرا سی عقل مندی سے کام لیتا، تو شہزادی اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی تھی۔ اس لئے ، کہ شہزادی نے ابھی تک صرف ان کو ملاقات کرتے ھوئے دیکھنے کی بات کی تھی۔ اس کے پاس ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ اور صرف شہزادی کے زبانی کلامی بتانے پر چوھدری اتنی آسانی سے اس کا یقین نہیں کرتا۔ الٹا شہزادی ھی پھنس جاتی۔ چوھدری اپنی بیٹی پر اس قسم کے الزامات، اور وہ بھی شہزادی کی زبانی، سن کر، یقیناْ شہزادی کو ھی الٹا لٹکا دیتا ۔ لیکن دلشاد کے اندر اتنی عقل نہیں تھی، یا پھر وہ اچانک حملے سے وقتی طور پر اتنا حواس باختہ ھو گیا تھا، کہ اتنی آسانی سے شہزادی کے سامنے کھل گیا۔ اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس کا اس طرح سے شہزادی جیسی لڑکی کے سامنے اعتراف کر لینا، کل اسے کتنی بڑی مصیبت سے دوچار کر سکتا ھے۔ ********************* دلشاد رات کے گیارہ بجے شہزادی کے گھر کے باھر موجود تھا۔ گھر کیا تھا، ایک کچّا سا مکان تھا، جس کے گرد کچّی دیوار بنا کر شہزادی کے غریب باپ نے اس کو گھر میں تبدیل کیا ھوا تھا۔ ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعد، دلشاد شہزادی کے گھر میں داخل ھوا ۔ اس نے جیسے تیسے کر کے ایک من گندم اس کے گھر میں پہنچا دی تھی۔ دلشاد نے گندم اپنے کندھے پر اٹھّا رکھّی تھی، جو اس نے شہزادی کے بتائے ھوئے کمرے میں رکھّ دی ۔ اور جونہی وہ کمرے میں گندم رکھ کے پلٹا تھا، تو ایک دم سے کوئی اس کے سینے سے آ لگا تھا۔ اس اچانک افتاد پر دلشاد گھبرا گیا تھا۔ اس نے سنبھلتے ھوئے غور کیا، تو اسے معلوم پڑا ، کہ یہ شہزادی ھی تھی۔ اس نے غور کیا، تو وہ سٹپٹا گیا، کہ شہزادی اس وقت مکمّل طور پر ننگی تھی، اور اس نے کمرے کی کنڈی بھی لگا دی تھی۔ دلشاد تو جیسے پتھّر کا ھو گیا تھا۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ شہزادی اس طرح سے بھی اسے گھیر سکتی ھے۔ آج جب کھیت میں اس نے شہزادی کی پیش قدمی پر اسے ردّ کر دیا تھا، تو شہزادی کے انداز سے اسے یہی محسوس ھوا تھا، کہ وہ اب اس سے اس طرح کی کوئی امّید نہیں رکھتی۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ شہزادی نے اس کے لئے کیا منصوبہ سوچ رکھّا تھا۔ دلشاد نے کوشش کی، کہ شہزادی کی گرفت سے نکل سکے۔ گو کہ دلشاد شہزادی کے مقابلے میں انتہائی طاقتور تھا، لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا، کہ اس کا دفاعی انداز انتہائی کمزور ھے۔ وہ شہزادی کو اپنے سے الگ کرنے کی کوشش تو کر رھا تھا، مگر یہ بھی ایک سچّائی تھی، کہ اسے شہزادی کو ننگا دیکھ کر اور اپنے ساتھ یوں وارفتگی سے چمٹے ھوئے محسوس کر کے دلشاد کو بہت مزہ آ رھا تھا۔ بڑے سے بڑا پرہیزگار اور پاکباز قسم کا مرد بھی تنہائی میں اپنے سامنے ایک ننگی لڑکی کو دیکھ کر لڑکھڑا سکتا ھے، کہ یہ چیز انسان کی جسمانی ضروریات میں سے ایک ھے، اور انسان کی جبلّت میں شامل ھے۔ ایک مکمّل مرد کسی بھی ننگی عورت کو تنہا دیکھ کر اس کی جانب مقناطیسی انداز میں کھنچتا چلا جاتا ھے۔ دلشاد کے ساتھ بھی یہی ھو رھا تھا۔ وہ نہ چاھتے ھوئے بھی شہزادی کے ساتھ لپٹ رھا تھا۔ اس کی گول ، سڈول اور بڑی بڑی چھاتیوں کے لمس نے اس کے اندر جنسی اشتعال پیدا کر دیا تھا۔ اس کا ھتھیار کھڑا ھو چکا تھا۔ اس نے ابتدا میں جو کمزور دفاعی انداز اختیار کئے تھے، اب وہ بھی نہیں کر رھا تھا، اور آخر اس نے شہزادی کو اپنی بانھوں میں بھر لیا۔ شہزادی بھی یہی چاھتی تھی۔ جب اس نے دیکھا، کہ دلشاد نے رضامندی ظاھر کر دی ھے، تو شہزادی نے اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ یہ مکمّل خود سپردگی تھی۔ دلشاد نے بھی اسے اپنے وجود میں سما لیا۔ دلشاد نے اسے چار پائی پر لٹا لیا۔ شہزادی نے جلدی جلدی اسے کپڑے اتارنے کا کہا۔ دلشاد بھی اب بے بس ھو چکا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنی شلوار اتاری، اور شہزادی کے اوپر لیٹ گیا۔ شہزادی کے ھونٹوں اور جسم پر اپنے ھونٹوں کے نشان ثبت کرتے ھوئے اس نے اس کے ممّوں کی کسّنگ شروع کر دی۔ اس سے شہزادی تڑپ اٹھّی۔ اس نے لمبے لمبے سانس لینے شروع کر دئے۔ دلشاد کی اپنی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ چند منٹ کی کسّنگ کے بعد ھی دلشاد کے لئے اپنے آپ پر قابو رکھنا دوچند ھو گیا۔ چنانچہ اس نے شہزادی کی ٹانگیں پکڑیں، اور اوپر کو اٹھا دیں ۔ شہزادی خود بھی چدائی کروانے میں ماھر تھی۔ اس نے فوراْ ھی اپنا زاویہ ایسے کر لیا، کہ دلشاد آسانی سے اس کی پھدّی مار سکے۔ جب دلشاد اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کر رھا تھا، شہزادی اس کے لن کو دیکھ کر مسکرائی۔ اسے دلشاد کا لن پسند آیا تھا۔ دلشاد نے اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے سارا لن اندر دھکیل دیا۔ دلشاد اس وقت اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام ھو رھا تھا۔ گاؤں کے سادہ ماحول میں رہنے والے کسی لڑکے کو جب پہلی پہلی بار کسی لڑکی کو چودنے کا موقع ملتا ھے، تو وہ ایسے ھی باؤلہ ھو جاتا ھے، جیسے دلشاد ھو رھا تھا۔ اس نے شہزادی کو اسیے چودا ، کہ باوجود کئی مرتبہ چدوائی کروانے کے، شہزادی رو پڑی۔ دلشاد نے جم کر اس کی پھدّی ماری، اور اس کی پھدّی کے اندر ھی فارغ ھو گیا۔ اس کام سے فارغ ھونے کے بعد، دلشاد کے اوسان بحال ھوئے، تو اسے اپنے کئے پر شرمندگی ھونے لگی۔ اسے محسوس ھوا، کہ اس کے سامنے عارفہ کھڑی اسے اس حالت میں دیکھ رھی ھے۔ اس خیال کے آتے ھی وہ انتہائی خجالت محسوس کرنے لگا۔ شہزادی کپڑے پہنے اسے دیکھ رھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی۔ وجود کی گرمی نکل جانے پر وہ انتہائی سکون سے لیٹی ھوئی تھی۔ دلشاد نے جلد سے جلد وہاں سے ھٹ جانے میں ھی عافیّت جانی، کہ وہاں کھڑے رھنے سے اس کے اندر احساس شرمندگی بڑھتا ھی چلا جا رھا تھا۔ شہزادی نے بھی اس کے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ دلشاد دیوار پھلانگ کر اس کے گھر سے نکل آیا۔ دلشاد اپنے تئیں کسی کی نظرون میں آئے بغیر وہاں سے نکل آیا تھا، مگر اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس وقت اسے کوئی دیکھ رھا تھا، اور وہ دیکھنا والا کوئی اور نہیں، بلکہ شکیلہ ھی تھی۔ وھی شکیلہ، جو اس کی اور عارفہ کی دستان محبّت کی واحد ھمراز تھی ۔ شکیلہ کا گھر عارفہ کے گھر سے کچھ ھی فاصلے پر واقع تھا۔ شکیلہ کو اس وقت نیند نہیں آ رھی تھی، اور وہ اس وقت اپنے گھر کی چھت پر کھڑی ٹہل رھی تھی، جب اس نے دلشاد کو شہزادی کے گھر کی دیوار پھاند کر اس کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر ساکت رہ گئی
0 Comments
Thanks