گاؤں میں چودا



 میرا نام عابد حیات ہے اور میں کوہاٹ کا رہنے والا ہوں۔ پہلی بار اپنی کہانی یہاں شائع کر رہا ہوں اُمید ہے سب کو پسند آئی گی۔ مجھے یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ایک سچھی کہانی ہے کیونکہ میری کہانی سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کہانی میں کتنی حققیقت ہے۔
میں ایک مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والد صاحب ایک سکول ہیڈماسٹر ہیں۔اور میری ماں ایک سیدھی سادھی گھریلوں عورت۔ ماشا اللہ ہماری فیملی ایک خوشخال فیملی ہے۔ ہم تین بہن بھائی ہیں۔یعنی میں اور میری دو بہن سمینہ اور سعدیہ۔ یہ کہانی اُس وقت کی ہے جب میں نے آٹھویں جماعت کاکے سہماہی امتخان دینے کے بعد امی سے ماموں کے گھر جانے کی فرمائش کی، میں اور میری بہن سمینہ عموما چھٹیوں میں ماموں کے گھر جاتے تھے۔ اس بار بھی ہم کو جانے کی فوراََ اجازت مل گئی۔میں یہ بھی بتاتا چلوں کے میری ننیال بنوں میں رہتی ہے۔ ہم اتوار کے دن کوہاٹ سے بنوں روانہ ہو گئے جو کہ تقریباَ 2 گھنٹے کا سفر ہے۔ ہمارے ماموں کا گھر بنوں میں ایک پسماندہ گاوں میں ہے۔ میرے ماموں کا خاندان کوئی اتنا بڑا خاندان نہیں ہے۔ میرے ایک اکلوتے ماموں، ایک نیک دل اور ہنس مک ممانی، دو کزن عدنان اور عمر اور ایک کزن شمائلہ۔ اس کے علاوہ جو ہم سب کی جان ہے وہ میری پیاری خالہ رخشندہ۔ ہمارے ماموں کا گھر بہت بڑا پر لوگ بہت کم اس لئے گھر بہت ہی بڑا لگتا ہے۔ ہم جب پہنچے تو سب کے چہروں پر خوشی کھل گئی۔کیونکہ ہم تقریبا 2 سال بعد انے موموں کے گھر آئے تھے۔ خالہ اور ممانی تو ہم دونوں پر قربان ہوئے جا رہی تھیں۔
شام کو ماموں نے کھانے کا خوب اہتمام کیا ہوا تھا اور ایک عرصے بعد گاوں کے کھانے اور دیسی گھی کھانے سے برسوں کی بھوک مٹ گئ۔ یہ دسمبر کی سرد راتیں تھیں اس لئے ہم چٹائی پر ہی کمبل اُڑھ کر دیر تک گپ شپ لگاتے رہے۔ پھر باری باری سب کو نیند آنے لگی۔ اور سمینہ تو سب سے پہلے ہی شمائلہ کے ساتھ اُس کے کمرے میں سو چکی تھی ۔ ممانی نے مجھ سے کہا کہ میں نے تمہارے لئے عدنان اور عمر کے ساتھ بیڈ لگایا ہے پر میں نے کہا کہ ممانی آپ کو نہیں پتہ کہ میں آنٹی کے علاوہ کہیں اور نہیں سوتا ۔ یہ سن کر خالہ مسکرائی کہ اُونٹ جتنا قد ہو گیا ہے پر اب بھی وہی بچپنا نہیں گیا۔ خالہ نےممانی سے کہا کہ عابد میرے ساتھ سوجائے کوئی بات نہیں۔ میں جب خالہ کے روم میں گیا تو وہا ں صرف ایک ہی ڈبل بیڈ تھا جس پر خالہ نے دو رضائیاں لگا دیں۔ اور میں دیوار کی طرف جس کی ایک کھڑکی ماموں کے کمرے کی طرف کھلتی تھی سو گیا اور خالہ بیڈ کے دوسرے کونے پر سو گئیں اور دس منٹ میں خراتے بھرنے لگی۔ پر مجھے نئی جگہ پر نیند نہیں آرہی تھی۔ اس لئے بار بار کروٹیں بدل رہا تھا۔ اس اثنا میں مجھے ماموں اور ممانی کی ہلکی ہلکی باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کیونکہ ماموں اور ممانی کا بیڈ بلکل کھڑکی کے ساتھ تھا اس لئے جب میں ذرا کان کھڑکی کے ساتھ لگایا تو مجھے ممانی کی تیز تیز سانسوں کی آوازیں سنائی دینے لگٰیں۔ میرے دل میں اشتیاق بڑھ گیا کہ ممانی کی طعبیت تو خراب نہیں ہوئی ۔ اس لئے کھڑکی کے ایک سوراخ سے جب آنکھ لگائی تو سامنے کا منظر دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔ہلکی ہلکی روشنی میں ممانی کے اُوپر ماموں لگا ہوا اُوپر نیچے ہو رہا تھا اور دونوں بلکل کپڑوں سے عاری تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے میں ایک عجیب کفیت پیدا ہو گئی اور پہلی بار مجھے اپنا لوڑا کھڑا ہوا محسوس ہوا اور مذید سخت ہوتا جا رہا تھا۔ کیونکہ ماموں نے بھی پنا لوڑا اندر کیا ہوا تھا اور بہت تیزی سے آگے پیچےہو رہا تھا اور میرا ہاتھ بھی خود بخود اپنے لوڑے پر چلا گیا۔ اتنے میں ماموں اور ممانی کی خرکتیں آہستہ ہو گئیں اور ممانی اپنے کپڑے پہن کر سو گئیں۔ میرے دماغ میں ایک آندھی چل رہی تھی۔ اور میں نے پھر رضائی اُڑھ کر جو دوسری طرف کروٹ بدلی تو میرا کھڑا ہوا لوڑا میرے قریب آچکی خالہ کے گانڈ سے ٹکرا گیا ۔ خالہ نیند کی بہت پکی ہے اس لئے اُس کو پتہ بھی نہیں چلا پر مجھ میں ایک بجلی کوند گئی۔ میں خالہ کے اور قریب ہو گیا اور اپنا لوڑا اُس کے گانڈ کے ساتھ تھوڑا اور سختی سے دبایا تو جسم میں کرنٹ بہنے لگا کیونکہ خالہ کی گانڈ بہت نرم تھی۔ پانچ منٹ تک میں اسی خالت میں رہا پھر میں نے اپنا لوڑا اپنے شلوار سے نکال دیا اور خالہ کی شلوار بھی نیچے کرلی اور خالہ کے گانڈ کے درمیاں لوڑا دے کر آہستہ آہستہ مسلنے لگا۔ مجھے لگا کہ میں آسمانوں میں اُڑ رہا ہوں۔ اسی دوراں خالہ نے کروٹ بدلی اور اُس کا چہرہ میرے سامنے آگیا۔ میں دو منٹ تک انتظار کرتا رہا پھر میں نے اُس کی آگے سے بھی شلوار نیچے کی اور اپنا لوڑا اُس کے بالوں سے بھرے چوت پر رگڑنا شروع کیا اب تو مجھے سے قابونہیں ہو پا رہا تھا اس لئے خالہ کو سیدھا لیٹا کر اُس کے اُوپر سوکر اُس کے رانوں میں اپنا لوڑا دے کر ہلانے لگا۔ مجھے اسی دوران محسوس ہوا کہ خالہ کی سانسیں تیز ہونے لگی ہیں پر وہ جان بوجھ کر سونے کا بہانہ کر رہی ہے۔ اسے لئے میرا حوصلہ بڑھ گیا ویسے بھی میرے سر پر اس وقت شیطان بیٹھا ہوا تھا اور مجھے وہ خالہ نہیں ایک عورت دیکھائی دے رہی تھی۔ جرات پا کر میں نے فیصلہ کیا کہ جس انداز سے ماموں کر رہے تھے میں بھی اُسی طرح ٹرائی ماروں اس لئے میں نے خالہ کی پوری شلوار اُتار دی اور اپنی بھی اور اپنے لوڑے کو خالہ کی چوت پر رکھ کر اندر کرنے کی کوشش کرنے لگا پر وہ اندر نہیں جا رہا تھا۔ پھر میں اپنے لوڑے کے سر پر تھوڑا سا تھوک لگا ئی اور خالہ کے چوت پر پھر اپنا لوڑا رکھا اور زور سے جو جھٹکا لگایا تو میرے لوڑے کا سرا اندر چلا گیا پر ساتھ ہی خالہ کی آہ کی آواز بھی آئی پر مجھے اس وقت کچھ نطر نہیں آرہا تھا میں نے اور زور لگایا اور پورا کے پورا اندار کر دیا ۔ لگتا تھا کہ خالہ کا چوت پہلے سے کھلا تھا کیونکہ اندر کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی پھر میں نے جو چودنا شروع کیا تو خالہ نے بھی جوش سے آہ آہ کی ہلکی ہلکی آوازیں نکالنا شروع کی اور اس دوران پانچ منٹ میں خالہ کے چوت سے پانی کا فوارہ نکل گیا پر میں اپنی دھن میں اُس کو چود رہا تھا اور خوب مزا آرہا تھا۔ اتنے میں مجھے لگا کہ میرے لوڑے سے کچھ نکل رہا ہے اور اچانک میں نے گرم پانی خالہ کے اندر چھوڑ دیا۔ اور جلدی سے شلوار پہن کر ساتھ سو گیا۔ ساتھیوں صبح کیا ہوا ۔۔۔اس کا احوال اپنے دوسرے کہانی میں سناوں گا

کئ دوستوں نے میری کہانی کو بکواس کہا، اچھا لگا کیونکہ تنقید سے ہی ایک بندہ کہانی لکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے میں نے کوئی کہانی نہیں لکھی اس لئے شاید لکھاری میں غلطی ہوئی ہے۔
دوستوں رات کو خالہ کے ساتھ سکس کرنے کے بعد میری تو زندگی بدل گئی۔ اور میں نے پہلی بار کسی عورت کا ذائقہ چکھا ۔ اور جب زبان کو ایک زائقہ چڑھ جاتا ہے تو پھر دل کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ ذائقہ بار بار چکھا جائے۔ اس لئے جب صبح اُٹھا تو خالہ سے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا۔ پر جب میں واش روم سے آیا تو خالہ میرے لئے ناشتہ لگا چکی تھی اوریہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ رات کو کیا ہوا ہے۔ میں نے بھی بات چھیڑنے کی کوشش نہیں کی پر رات کے تمام مناظر ایک ایک کرکے میرے آنکھو ں کے سامنے ناچ رہے تھے۔ جب میں نا ممانی کو دیکھا تو مجھے وہ چلتی ہوئی بھی اُسی طرح ننگی دکھائی دے رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ کاش ماموں کی جگہ میں اُن کے ساتھ سوجاتا۔ کیونکہ ممان کے فیگر بہت بڑے ہیں۔ اور اس کی گانڈ بھی بہت نکلی ہوئی تھی اور دیکھ کے دل مچل رہا تھا کہ اس کو کسی طریقے سے مس کیا جائے۔پر کوئی تدبیر سوچ میں نہیں آرہی تھی۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد سر میں شدید درد شروع ہوااور ہلکا ہلکا بخار بھی چڑھ گیا ۔ممانی نے میری حالت دیکھی تو سردرد اور بخار کی گولیاں دیں اور کہا کہ میرے روم میں سو جاو اور آرام کرلو۔ جب میں ممانی کے روم میں سو گیا تو تو ممانی بھی باتیں کرتی ہوئی میرے سرہانے بیٹھ گئی اور میرا سر ہلکا ہلکا دبانے لگی۔ مجھےاس کے ہاتھوں کے لمس سے بہت سرور ملنے لگا اور میری کہنی بھی اُس کے رانوں سے مس ہونے کی وجہ سے میرا لوڑا کمبل کے اندر پوری طرح کھڑا ہوگیا۔ گولیاں کھانے سے اور ممانی کے لمس کی گرمی سے میری حالت بہت بہتر ہوئی ، پر میرے اندر کی گرمی پوری طرح جاگ گئی تھی۔ (جاری ہے
اور قدرتی طور پر میرا ہاتھ میرے لوڑے پر چلا گیا اور میں وہاں ممانی میرے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی اور یہاں میں اپنے لوڑے کو سہلا رہا تھا، بہت زیادہ مزا آرہا تھا۔ پر اچانک ممانی کو خالہ نے آواز دی اور ممانی باہر چلی گئی اور میرا سارا موڈ خراب کر دیا۔ میں خود پر برا بلا کہتا ہوا پتہ نہیں کس ٹائم نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔ گولیوں کے اثر سے میں بہت دیر تک سوتا رہا اور عصر کے وقت میری آنکھ کھلی۔ تو جسم بہت ہلکا محسوس ہوا۔ ممانی کے کہنے پر میں نے تھوڑا سا کھیر کھایا۔ ھر عدنان آگیا اور کہا کے چلو تھوڑا باہر گھومنے چلتے ہیں۔ میں بھی عدنا ن کے ساتھ ہوتا ہوا دور کھیتوں میں نکل گیا۔ عدنان کے ساتھ میری کافی بے تکلفی ہے۔ میں نے عدنان سے  کہا کہ یار تم کو کیا اچھا لگتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے تو فلمیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ میں نے کہا کہ انڈین فلمیں تو اُس نے کہا کہ نہیں مجھے سکس کی فلمیں بہت اچھی لگتی ہیں پر کوئی موقع نہیں ملتا دیکھنے کا کبھی کبھی یاسر چاچا کے بیٹے سلمان کے موبائل میں دیکھ لیتا ہوں پر وہ بھی ڈر ڈر کر۔ میں اُس کے شانوں پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہ کیا بڑی بات ہے میرے پاس موبائل میں بہت سی سکس فلمیں پڑی ہیں۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا جب میں نے موبائل نکال کربرایانا بنک، جیل کیلی،جولیا آن اور کارا فن کی فل کہ سب پورن سٹار ہیں کی فلموں کی ایک ایک جھلک دکھا دی۔ عدنان نے کہا کہ عابد کیا میں آج رات یہ سب دیکھ سکتا ہوں میں نے کہا کہ ہان کیوں نہیں پر اگر میرا کوئی کال آئی تو کیا ہوگا۔ تو عدنان نے کہا کہ آج تم میرے ساتھ میرے روم میں سو جانا۔ میں نے بے دلی سے کہا کہ ٹھیک ہے کیونکہ مجھے تو خالہ کا چسکا لگا ہوا تھا۔ خیر رات کا کھانا کھانے کے بعد ممانی نے پوچھا کہ عابد نے کہا سونا ہے۔ عدنان نے فوراََ کہ دیا کہ آج عابد میرے روم میں سوئے گا۔ خالہ نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی کہ میں کیا کہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ ممانی فیصلہ کرے میں کہاں سوں ۔ ممانی نے کہا کہ بیٹا یہ پورا گھر تمہارا ہے جہاں دل کرے۔ پر عدنان تو پوری طرح ضد پر آگیا کہ جہاں عابد سوئے گا وہاں میں بھی سونگا۔ میں نے کہا کہ چلو آج ہم عدنان کے مہمان بن جاتے ہیں۔ پس کھانا کھانے کے بعد میں بے دلی سے عدنان کے ساتھ اُس کے روم میں چلا گیا اور اپنے آپ کو کسنے لگا کہ کیوں اُس کو فلمیں دکھائیں