تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے
پاکستان میں آجکل اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کا دھرنا چل رہا ہے اور یہ کہانی بھی اسی دھرنے کی ہے۔ میرا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مجھے سیاست میں کوئی دلچسپی ہے۔ میری ایک دوست سمیرا اسلام آباد میں رہتی ہے۔ سمیرا میری بہت اچھی دوست ہے۔ اسکا زکر میری پہلے والی کہانی میں بھی عنقریب آئے گا۔ تو ہوا کچھ یوں کہ سمیرا نے مجھے اسلام آباد اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اسکو یونیورسٹی کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں اور اسکی فیملی کو کسی شادی میں کراچی جانا تھا لہذا سمیرا کا شادی میں جانا مشکل تھا اس لیے اس نے مجھے اپنے پاس اسلام آباد آنے کو کہا تاکہ وہ گھر میں اکیلی نہ رہے۔ میں نے بھی اپنا سامان پیک کیا اور 13 اگست کو اسلام آباد پہنچ گئی ڈائیو پر۔ 13 اگست کی شام کو میں اسلام آباد پہنچی اور سمیرا نے اپنی گاڑی پر مجھے ڈائیو ٹرمینل سے پک کیا۔ ہم سیدھے گھر گئے اور میں تھکاوٹ سے فورا ہی بستر پر جا کر لیٹ گئی۔ ایک گھنٹہ ریسٹ کرنے کے بعد سمیرا نے مجھے آوٹنگ پر جانے کا کہا اور میں فورا ہی تیار ہوگئی کیونکہ مجھے اسلام آباد دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہم گاڑی میں باہر گئے اور ہمارا رخ سینٹورس ٹاور کی طرف تھا ابھی گھر سے کچھ دور ہی نکلے تھے تو پتا لگا آگے گورنمنٹ نے کینٹینر لگا کر راستے بند کیے ہوئے ہیں۔ سمیرا نے گاڑی کا رخ واپس موڑا اور یو ٹرن لیتی ہوئی اور راستے سے سینٹورس جانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ ہر طرف سے راستے بند تھے۔ معلوم نہیں کون کونسے راستے استعمال کیے سمیرا نے مگر اپنی منزل پر پہنچنے میں ناکام رہی۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کیونکہ میں پہلی بار اسلام آباد آئی تھی اور میں نے سینٹورس ٹاور کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ اور مجھے بہت شوق تھا دیکھنے کا مگر میں ناکام رہی۔ پھر سمیرا نے گاڑی ایک ریسٹورینٹ کے سامنے روک دی۔ ہم نے وہاں سے کھانا کھایا اور رات 10 بجے کے قریب گھر پہنچ گئے۔
گھر پہنچ کر ہم نے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور سمیرا نے اپنی 40 انچ کی ایل ای ڈی پر نئی انڈین مووی ہیٹ سٹوری 2 لگا دی۔ یہ مووی سیکس سے بھرپور ہے اور سمیرا اور میں پہلے آپس میں سیکس کر چکے تھے۔ لہذا اس فلم کو دیکھ کر ہم دونوں ہی گرم ہونے لگیں اور میری نظریں سمیرا کے 36 سائز کے مموں پر جم گئیں۔ سمیرا ایک خوبصورت لڑکی ہے جس میں سیکس کی خواہش بہت ذیادہ ہے۔ 36 سائز کے گول ممے اسکی سفید قمیص میں تنے ہوئے تھے اور نیچے سے سرخ کلر کا برا نظر آرہا تھا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھی اور سمیرا کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ اسکے مموں پے رکھ دیے۔ جیسے ہی میرے ہاتھ اسکے مموں پر رکھے وہ ایک دم سے ہنسنے لگی اور بولی آج پھر سیکس کا ارادہ ہے کیا؟؟؟ تو میں نے کہا تمہارے ممے ہیں ہی اتنے پیاری اوپر سے تم نے سیکسی مووی لگا کر میری پھدی کو بھی گیلا کر دیا ہے تو تھوڑا سیکس تو ہونا ہی چاہیے۔ یہ سن کر اس نے زور سے مجھے جپھی ڈالی اور اپنے نرم و نازک ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی۔ اسکا ایک ہاتھ میرے بالوں میں تھا اور ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر مجھے زور سے اپنے ساتھ لگا رکھا تھا۔ میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے ہپس پکڑ لیے۔ سمیرا کے ہپس بھی 36 سائز کے ہی ہیں۔ میں اسکے ہپس دپا رہی تھی اور ساتھ ساتھ ہم دونوں بھرپور کسنگ بھی کر رہی تھیں۔
میں نے اپنی زبان سے سمیرا کے ہونٹوں پر دباو ڈالا تو اسنے اپنے ہونٹ کھول دیے اور میری زبان سیدھی سمیرا کے منہ میں چلی گئی۔ اب میری زبان سمیرا کی زبان سے ٹکرا رہی تھی اور وہ میری زبان کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے میں مصروف تھی۔ کبھی وہ میری زبان چوستی اور کبھی میں اسکی زبان اپنے منہ میں لیکر چوستی۔ کچھ دیر اسی طرح کسنگ جاری رہی اور میں ساتھ ساتھ سمیرا کی گانڈ بھی دباتی رہی۔ پھر سمیرا نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ہٹائے اور میرے کان میں اپنی زبان پھیرنے لگی۔ اسکی اس حرکت نے تو مجھے جیسے پاگل کر دیا۔ اور میں سمیرا کی بانہوں میں تڑپنے لگی۔ پھر اسکی زبان میری گردن تک آئی اور وہ میری گردن چاٹنے لگی اور ساتھ میں اپنے دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹنے لگی گردن پر۔ اب میرا ایک ہاتھ سمیرا کی گانڈ پر اور دوسرا ہاتھ اسکے سر پر تھا۔ گردن سے ہوتی ہوئی وہ میرے سینے تک آئی اور میرے سینے پر پیار کرنے لگی ۔ اب اسکے دونوں ہاتھ میری گانڈ پر تھے اور وہ میرے سینے پر مموں کے درمیں کلیوج پر اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے سمیرا کی کمر ننگی کی اور اسکی قمیص اوپر اٹھا کر اسکی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سمیرا کی نرم اور ملائم کمر پر ہاتھ پھیرنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ پھر میں نے اپنا ایک ہاتھ سمیرا کی شلوار میں ڈال دیا۔ اور اسکی گانڈ دبانے لگی۔ سمیرا کے چوتڑوں گوشت سے بھرے ہوئے تھے اور ملائی کی طرح نرم تھے۔ میں نے اپنی ایک انگلی اسکی گانڈ میں موجود گیپ میں پھیرنی شروع کی جس سے وہ پاگل ہونے لگی۔ اور اسنے فورا ہی میری قمیص اتار دی۔ اب میں بلیک کلر کے برا میں اسکے سامنے تھی اور میرے 34 سائز کے ممے اسکے ہاتھ میں تھے۔ اسنے پیچھے سے میرے برا کی ہک کھولی اور اور میرے مموں کو برا سے آزاد کر دیا۔ سمیرا نے اب دونوں ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑے، میرے گول اور سڈول ممے سمیرا کے ہاتھ میں جیسے ہی گئے، گلابی نپل بھی سخت ہوگئے اور ان میں تناو پیدا ہوگیا۔ اب سمیرا اپنی زبان میرے نپلز پر پھیر رہی تھی اور میں مزے سے پاگل ہو رہی تھی جیسے کسی اور ہی دنیا میں آگئی ہوں میں۔ میں اپنے ہاتھ سمیرا کے بالوں میں پھیر رہی تھی اور ایک ہاتھ سے سمیرا کی کمر سہلا رہی تھی۔ سمیرا کحی میرے ایک ممے کو اپنے منہ میں لیتی تو کبھی دوسرے ممے کو۔ وہ میرے نپل اپنے منہ میں لیکر ایسے چوستی جیسے ان میں سے دودھ پی رہی ہو۔ میرا ایک نپل سمیرا کے منہ میں ہوتا تو دوسرے نپل کو وہ اپنی انگلیوں سے دباتی جس سے مجھے بہت مزہ آتا۔
ایک لمحے کے لیے سمیرا نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تہ میں نے دوبارہ سے سمیرا کو کسنگ کرنا شروع کردیا۔ اسکے خوب ہونٹ چوسے۔ اسکے گرم اور رس بھرے ہونٹوں سے میں لطف اندوز ہونے لگی اور ساتھ ہی سمیرا کے جسم کو اسکی قمیص سے آزاد کرنے کے بعد اسکا سرخ کلر کا برا بھی اتار دیا۔ اب سمیرا کے 36 سائز کے تنے ہوئے اور گول سڈول ممے میرے سامنے تھے۔ میں نے اپنے ممے سمیرا کے مموں سے ملائے اور آہستہ آہستہ ہم اپنے ممے ایک دوسرے کے ساتھ رگڑنے لگیں۔ ہم دونوں کے نپلز آپس میں ٹکرا رہے تھے جسکا ہمیں بہت مزہ آرہا تھا۔ اتنے میں میں نے سمیرا کے ممے اپنے ہاتھوں میں لیکر زور سے دبا دیے جسکا اسے بہت مزہ آیا۔ پھر میں نے سمیرا کے تنے ہوئے نپلز پر اپنی زبان پھیرنی شروع کی اور ساتھ ساتھ اسکے نپلز کو دانتوں سے دبانے لگی۔ دانتوں سے نپلز کاٹنے پر سمیرا کو بہت مزہ آرہا تھا اور وہ فورا لیٹ گئی اور مجھے اپنے اوپر آنے کو بولا۔ میں نے پہلے اپنی شلوار اتاری اور سمیرا کے اوپر لیٹ گئی۔ میںے نے پینٹی نہیں پہنی ہوئی تھی اور اس وقت میں فل ننگی سمیرا کے اوپر لیٹی تھی۔ میری چوت بھی بالکل بالوں سے صاف تھی کیونکہ میں نے ملتان سے چلنے سے پہلے ہی اپنی چوت کی صفائی کی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں نے اور سمیرا نے آپس میں لیسبین سیکس کا مزہ لینا ہے۔
سمیرا کے اوپر لیٹ کر میں نے اسکے ممے چاٹنا شروع کر دیے کافی دیر مموں پر اپنی زبان پھیرنے کے بعد میں سمیرا کی ناف کی طرف آئی اور اسکے بیلی بٹن میں اپنی زبان گھمانے لگی جس سے سمیرا کی سسکیاں نکلے لگیں۔ وہ اپنے ہاتھ میرے بالوں میں پھیر رہی تھی اور سسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ تڑپنے لگی ہوئی تھی۔ بیلی بٹن سے ہوتے ہوئے میں اور نیچے آئی اور سمیرا کی شلوار اتار کر اپنی زبان اسکی پھدی پر رکھ دی۔ سمیرا نے بھی اپنی پھدی آج ہی صاف کی تھی۔ اب میں نیچے آگئی تھی اور سمیرا کی ٹانگیں کھول کر درمیان میں لیٹ گئی اور اپنی زبان سے سمیرا کی پھدی چاٹنے لگی۔ میں مسلسل اپنی زبان سمیرا کی پھدی پر رگڑ رہی تھی۔ جب میں سمیرا کے دانے پر اپنی زبان پھرتی تو وہ مزے سے چیخیں مارنے لگتی اور اپنا سر دئیں بائیں پٹخنے لگتی۔ سمیرا نے میرا سر اپنے ہاتھ سے پکڑ کر زور سے اپنی پھدی کے اور دبایا ہوا تھا۔ میں کبھی اپنی زبان سمیرا کی پھدی کے دانے پر پھیرتی تو کبھی زبان سے پھدی کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیتی اور کبھی زبان پھدی میں داخل کر کے اسکو زبان سے چودنے لگتی۔ سمیرا کی پھدی اسوقت آگ کی بھٹی کی طرح جل رہی تھی۔ 2 منٹ زبان پھیرنے کے بعد سمیرا کے جسم میں تناو آنے لگا اور اسنے اپنی گانڈ بستر سے اوپر اٹھا لی اور میرا سر اور بھی زور سے اپنی پھدی پر رکھ کر سسکیاں لینے لگی۔ میں سمجھ گئی کہ سمیرا اپنا پانی چھوڑنے لگی ہے میں نے سمیرا کے دانے پر زبان پھیرنا شروع کی اور فورا ہی سمیرا کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اسکا گرم گرم اور نمکین پانی بیڈ شیٹ کو گیلا کر چکا تھا اور کچھ پانی میری زبان سے بھی لگا ۔ پانی زبان پر لگتے ہی میں سمیرا کے اوپر لیٹ گئی اور اپنی زبان سمیرا کے منہ میں داخل کر دی جس کو اسنے چوسنا شروع کر دیا۔ سمیرا کے چہرے پر اب اطمینان تھا اور اب چوت چٹوانے کی باری میری تھی۔ میں بیڈ پر ٹانگیں کھول کر لیٹ گئی اور سمیرا میرے اوپر 69 پوزیشن بنا کر لیٹ گئی۔ اب اسکی چوت میرے منہ کے اوپر اور اسکا منہ میری چوت کے اوپر تھا۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کی چوت پر اپنی اپنی زبان رکھی اور چاٹنا شروع کر دیا۔ سمیرا بہت ہی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ میری چوت چاٹ رہی تھی۔ مجھے پہلے ہی اپنی چوت میں گیلا پن محسوس ہورہا تھا۔ سمیرا نے میری ٹانگیں کھولی ہوئی تھی اور اپنی ایک انگلی میری چوت میں داخل کر کے مجھے چودنے لگی تو ساتھ ہی اپنی زبان سے میرے دانے کو بھی چوسنے لگی۔ میں نے اپنی ایک انگلی سمیرا کی گانڈ میں داخل کر دی اور اسکی گانڈ کی چدائی کرنے لگی اور زبان سے سمیرا کی پھدی چاٹنے لگی۔ ہم کوئی 3 سے 4 منٹ تک ایسے ہی ایک دوسرے کی چوت کو چاٹنے میں مصروف رہی٫ ہم دونوں کی سیکس سے بھرپور آوازیں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں اور ہم بلا خوف سیکسی آوازیں نکال رہی تھی کیونکہ پورے گھر میں سمیرا اور میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
کچھ دیر مزید ایک دوسرے کی چوت چاٹنے کے بعد ہم دونوں کی چوت نے اپنا اپنا پانی چھوڑ دیا۔ میری چوت کے پانی کو سمیرا نے اپنی زبان کے ذریعے منہ میں داخل کر لیا اور سمیرا کا بھی کچھ پانی میرے منہ میں گیا تو کچھ پانی میرے سینے پر بہ گیا۔ فارغ ہونے کے بعد ہم نے دوبارہ ایکدوسرے کو کسنگ کی اور اپنی اپنی چوت کے پانی کا ذائقہ ایکدوسرے کے منہ سے محسوس کیا۔ کچھ دیر ہم دونوں ایسے ہی لیٹی رہیں کہ میرے جسم نے پھر گرم ہونا شروع کر دیا۔ سمیرا دو بار فارغ ہو چکی تھی جبکہ میری چوت ابھی بھی گرم تھی۔ میرے جسم کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے سمیرا بیڈ سے اتری اور اپنی الماری کھول کر کپڑوں کے نیچے سے کچھ نکالنے لگی۔ میں نے پوچھا کیا کر رہی ہو تو وہ بولی کہ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے ایک چابی نکالی اور اسی الماری میں موجود دراز کھولنے لگی۔ دراز کھول کر اسنے جو چیز نکالی وہ دیکھ کر میری آنکھوں میں سیکس کی ہوس اور بھی جاگ اٹھی۔ جی ہاں وہ کچھ اور نہیں بلکہ ایک 12 انچ کا ڈلڈو تھا۔ جن دوستوں کو ڈلڈو کے بارے میں نہیں پتا انہیں بتاتی چلوں کہ یہ ایک مصنوعی لن ہوتا ہے ربڑ کا بنا ہوا جسکو آپ نے عموما پورن مویز میں بھی دیکھا ہوگا۔ سمیرا اس مصنوعی لن یعنی کے ڈلڈو کو میری آنکھوں کے سامنے لا کر لہرانے لگی تو میری پھدی اور بھی بیتاب ہونے لگی اس ڈلڈو کو اپنی اندر سمانے کے لیے۔ میں نے سمیرا سے پوچھا کہ یہ کہاں سے لیا تم نے تو اسنے بتایا کے ایک ویب سائٹ ہے چائنہ کی جس کے ذریعے آپ پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی سا سامان منگوا سکتے ہو۔ اس ویب سائٹ پر سیکس سے متعلق بھی کافی چیزیں موجود تھیں تو سمیرا نے یہ مصنوعی لن اسی ویب سائٹ سے 10 ڈالر یعنی کے 1000 روپے میں منگوایا تھا۔
بیڈ پر آکر پہلے ہم دونوں نے تھوڑی سی کسنگ کی اور اسکے بعد سمیرا نے اس لن کی ایک سائڈ اپنے منہ میں لے کر اسکو چوسنا شروع کر دیا۔ اس 12 انچ کے لن کی خاص بات یہ تھی کے یہ دونوں سائیڈ سے لن کی ٹوپی والی شکل کا ہی تھا۔ یعنی کہ 12 انچ کے ربڑ کا یہ ٹکرا دونوں سائیڈ سے ایسا بنا ہوا تھا جیسا کے مرد کے لن کی ٹوپی ہوتی ہے لہذا اسکو دو لڑکیاں ایک ہی وقت میں اپنی پھدی میں لے سکتی ہیں۔ سمیرا نے لن کی ٹوپی چوسنے کے بعد ہوی سائیڈ میری پھدی پر مسلنا شروع کر دی جس سے مجھے مزہ آنے لگا۔ اس لن کا مزہ رضوان یا عمران کے لن جیسا تو نہیں تھا مگر پھر بھی کچھ نا ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ اور اس وقت یہ مصنوعی لن مجھے بہت مزہ دے رہا تھا۔ میں نے اپنی ٹانگیں کھولیں اور کہنی بیڈ پر لگا کر پیچھے کی طرف لیٹ گئی۔ کچھ دیر میری پھدی پر مصنوعی لن کی ٹوپی پھرنے کے بعد سمیرا نے لن کی ٹوپی میری پھدی میں داخل کر دی۔ ٹوپی بہت ہی آرام سے میری پھدی میں داخل ہوگئی اور میں نے سمیرا کا ہاتھ پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں ڈلڈو اپنی پھدی میں داخل کر دیا۔ اس ڈلڈو کا تقریبا 5 یا 6 انچ تک کا حصہ میری پھدی میں تھا اور اب سمیرا اسکو اندر باہر کر کے میری پھدی کی چدائی کر رہی تھی۔ جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ آج کافی دنوں کے بعد میرے پھدی کو لن ملا تھا۔ آہستہ آہستہ سمیرا نے لن اور زیادہ میری پھدی میں گھسانا شروع کیا اور مجھے درد محسوس ہونے لگا۔ سمیرا تقریبا 8 یا 9 انچ تک لن میری پھدی میں گھسا چکی تھی اور اب مزید اندر کروانا میرے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ میں درد سے چیخنے لگی مگر سمیرا نے میری پھدی کی چدائی جاری رکھی۔ کافی دیر چدائی کے بعد سمیرا نے لن میری پھدی سے تھورا باہر نکالا اور اپنی پھدی میری پھدی کے قریب رکھ کے وہ بھی کہنی کے بل لیٹ گئی اور لن کی دوسری سائیڈ کی ٹوپی اپنی پھدی میں داخل کر لی۔ اب یہ مصنوعی لن ہم دونوں کی پھدی میں تھا تقریبا 5 انچ میری پھدی میں تو 5 انچ ہی سمیرا کی پھدی میں تھا تھوڑا سا باہر ہی تھا جسکو ہم کوشش کے باوجود بھی اپنی پھدی میں داخل نہیں کر سکیں کیونکہ اس حالت میں اپنی پھدی آپس میں ملانا مشکل تھا۔ اب حالت یہ تھی کہ ہم دونوں کی پھدی کا رخ ایکدوسرے کی طرف تھا اور ہم دونوں کی پھدی میں لن کی ایک ایک ٹوپی تھی ۔ ہم نے اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلا کر خود سے ہی اپنی چودائی جاری رکھی۔ ہماری ٹانگیں ایکدوسرے کو چھو رہی تھیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ہم دونوں کا جسم ہی گرمی سے پگھل ہرا تھا
کچھ دیر تک ایسے ہی لن سے چدائی کے بعد ہم دونوں کی سپیڈ میں اضافہ ہوگیا اور ہماری چیخوں نے تو جیسے پورے کمرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان چیخوں میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا اور ہم دونوں کی سپیڈ میں بھی اضافہ ہورہا تھا اور ہم دونوں کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لن اپنی پھدی میں لیا جائے۔ کچھ ہی دیر بعد میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا اور ساتھ ہی سمیرا بھی فارغ ہوگئی۔ فارغ ہونے کے بعد میں کچھ دیر سکون سے لیٹی رہی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ پھر سمیرا نے لن پھدی سے نکالا اور وہ سائیڈ جو اسکی پھدی میں تھی میرے منہ میں ڈال دی اور جو لن کی جو سائڈ میری پھدی میں تحھیوہ اپنے منہ میں لیکر اسے چوسنے لگی۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کی پھدی کا پانی لن سےچوس کر صاف کر لیا۔ کچھ دیر ریسٹ کرنے کے بعد سمیرا کچن میں گئی اور وہاں سے انگور لے آئی اور ساتھ میں سیب کا تازہ جوس نکال لئی۔ جوس پی کر اور انگور کھا کر مجھے کچھ طاقت ملی اور جسم میں جان آئی۔ سمیرا ایک راونڈ اور لگانا چاہتی تھی مگر میں مزید اسکا ساتھ نہ دے سکی کیونکہ 8 گھنٹے کا سفر اور اسکے بعد یہ سیکس مجھے تھکانے کے لیے کافی تھا۔ میں نے اپنے کپڑے پہنے اور بیڈ پر لیٹ گئی کچھ ہی دیر میں میری آنکھ لگ گئی۔ سمیرا کب سوئی مجھے کچھ علم نہیں۔
اگلے دن دوپہر کے 2 بجے سمیرا نے مجھے اٹھایا اور فریش ہونے کا کہا۔ میں فریش ہوکر آئی تو سمیرا ناشتہ بنا چکی تھی گرم گرم پراٹھے ساتھ آملیٹ اور چائے کا ناشتہ کر کے ہم دونوں پھر گاڑی نکال کر اسلام آباد گھومنے نکل گئیں۔ شکر ہے کہ آج راستے کھلے تھے، 14 اگست کا دن تھا اسلام آباد کی سڑکیں پاکستان کے جھنڈوں سے سجی ہوئی تھیں۔ ہم نے سینٹورس مال سے خوب ونڈو شاپنگ کی۔ کچھ کام کی چیزیں بھی خریدیں سمیرا نے مگر میں نے ونڈو شاپنگ پر ہی گزارا کیا۔ 3، 4 گھنٹے سینٹورس مال پر پھرنے کے بعد جب سمیرا مجھے مونومنٹ لیجانے لگی تو راستے میں پھر سے کنٹینر موجود تھے۔ وہاں موجود پولیس والوں کے پاس سمیرا نے گاڑی روکی اور پولیس والے کو اپنی طرف متوجہ کیا، جب پولیس والا گاڑی کے پاس آیا تو سمیرا نے پوچھا کہ کون کونسے راستے کھلے ہیں تو پولیس والے نے بتایا کہ کچھ ہی راستے کھلے ہیں آپ فورا سے پہلے گھر کو جائیں کیونکہ وہ راستے بھی بہت جلد بند ہوجائیں گے پشاور سے تحریک انصاف کی ریلی آنے والی ہے لہذا حکومت نے تمام راستے بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ سن کر سمیرا نے فورا گاڑی گھمائی اور سیدھی گھر کے سامنے جا کے روکی۔ گھر پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہم نے اپنی کی ہوئی شاپنگ دوبارہ سے دیکھی جو کہ اصل میں سمیرا نے ہی کی تھی ساری۔ اور اسکے بعد سمیرا نے ایک سوٹ میرے حوالے کر دیا کہ یہ میں نے تمہارے لیے خریدا ہے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور وہ سوٹ رکھ دیا۔ اسکے بعد سمیرا نیوز چینل لگا کر بیٹھ گئی اور تحریکِ انصاف کے ہونے والے دھرنے کی خبریں سننے لگی۔ اسکو سیاست سے لگاو بھی ہے اور سمیرا کا بھائی تحریکِ انصاف کی سٹوڈنٹ تنظیم آئی ایس ایف کا سرگرم رکن بھی ہے۔ میرے لیے یہ کام انتہائی بورنگ تھا لہذا میں ایک ناول اٹھا کر پڑھنے لگ گئی۔ رات ہونے پر ہم نے باہر سے پیزا منگوایا ، اور پیزا کھا کر سوگئے
اگلے دن 15 اگست کی دوپہر ایک بجے جب میری آنکھ کھلی تو سمیرا پھر سے نیوز چینل لگا کر بیٹھی تھی اور خبریں سننے میں مصروف تھی۔ گوجرانوالہ میں عمران خان کے کنٹینر پر پتھراو ہوا تھا اور اسکے بارے میں ٹالک شوز میں کافی بحث ہو رہی تھی سمیرا بھی غصے میں بیٹھی سب سن رہی تھی اور مسلم لیگ ن کو گالیاں دے رہی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت ہنسی آئی تو سمیرا کو اور بھی غصہ آگیا کہ عمران خان پر حملہ ہوگیا ہے اور تم ہنس رہی ہو۔ میں نے کہا سب سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں اپنے اپنے مفادات کے لیے عوام کو استعمال کرتے ہیں۔ اس پر سمیرا نے مجھے ایک بڑا سارا لیکچر دیا اور تحریک انصاف کی خوبیاں گنوانے لگی جسکو میں نے چپ چاپ سننے میں ہی عافیت جانی کیونکہ مجھے سیاست سے لگاو بھی نہیں اور میں بحث بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی کام میں رات کے 9 بچ چکے تھے۔ اور خبر آئی کہ عمران خان کی ریلی پنڈی کے قریب پہنچنے والی ہے۔ یہ سن کر سمیرا نے مجھے تیار ہونے کا بولا خود ایک الماری سے منرل واٹربوتلیں نکالی کوئی 50 کے قریب پانی کی بوتلیں تھی سمیرا نے میرے ساتھ مل کر یہ بوتلیں اپنی گاڑی میں رکھیں اور ہم دونوں باہر نکل گئے۔ باہر بارش بھی بہت تیز تھی کچھ ہی دیر بعد مجھے پتا لگا کہ ہم لوگ عمران خان کی ریلی کو ویلکم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ جان کر دل ہی دل میں نے سمیرا کو گالیاں بھی دیں کہ یہ کس کام پر لگا دیا ہے مجھے۔ لیکن کیا کرتی مجبوری تھی اسکو کہیں گھومنے پھرنے کا بھی نہیں کہ سکتی تھی کیونکہ ہر جگہ کنٹینر لگے ہوئے تھے۔ لہذا یہی بہتر تھا کہ اسی سرگرمی میں ٹائم گزارا جائے۔ جہاں سے ریلی نے اسلام آباد میں داخل ہونا تھا سمیرا نے گاڑی وہاں جا کر سائیڈ پر پارک کی ، وہاں پر اور بھی لوگ جمع تھے، بڑی تعداد میں پٹھان بھی موجود تھے جو شاید پچھلے روز پشاور سے آئے تھے۔ ہر طرف تحریک انصاف کے پرچم دکھائی دے رہے تھے بہت ساری فیمیلیز بھی موجود تھیں۔ یہ دیکھ کر مجھے کافی حیرانی ہوئی کہ اتنی بڑی تعداد میں فیمیلیز ریلی کو ویلکم کرنے آئیں تھی۔ ان میں لڑکیاں، بڑی عمر کی عورتیں، مرد بچے ، بوڑھے سبھی شامل تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے لگا کہ تحریک انصاف پنڈی اور اسلام آباد میں بہت پسند کی جاتی ہے۔ ہم بھی انہی لوگوں کے ساتھ نکل کر روڈ کے ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئیں، بارش تیز تھی سمیرا نے گاڑی سے چھتری بھی نکالی اور ہم دونوں ایک چھتری کے نیچے کھڑی رہیں۔ اتنے میں دور سے کافی زیادہ گاڑیوں کی لائیٹیں نظر آنے لگیں تو روڈ کے سائیڈ پر کھڑے مجمع میں خوشی کی لہر دوڈ گئی جیسے انکا اپنا کوئی آرہا ہو۔ جب ریلی ہمارے قریب پہنچی تو اکثر گاڑیوں میں تحریکِ انصاف کے پارٹی سانگز اونچی آواز میں لگے ہوئے تھے، گاڑیوں کی رفتار بہت سلو تھی، ہر گاڑی پر پارٹی پرچم بھی لگے ہوئے تھے اور لڑکے لڑکیاں گاڑیوں کے دروازوں پر شیشہ کھول کر باہر نکل کر بیٹھے تھے اور اپنی پارٹی کا پرچم لہرا کر وکٹری کا نشان بنا رہے تھے۔ سائیڈ پر کھڑی خواتین اور مرد حضرات بھی وکٹری کا نشان بنا کر آنے والوں کو ویلکم کر رہے تھے۔ اکثر گاڑیاں جن میں ڈیک لگے ہوئے تھے کچھ دیر کے لیے رکتیں اور سائیڈ پر کھڑے لڑکے گاڑی کے آگے آکر ڈانس کرتے اور کچھ دیر بعد وہ گاڑی آگے نکل جاتی تو پیچھے سے آنے والی گاڑی کو روک کر اسی طرح ڈانس کیا جاتا۔ اب مجھے بھی یہ دیکھ کر اچھا لگنے لگا میں بھی اس میں شامل ہوگئی اور آنے والوں کو وکٹری کا نشان بنا کر ویلکم کرنے لگی حالانکہ مجھے تحریکِ انصاف کے آنے کی کوئی خاص خوشی نہیں تھی مگر یہ ماحول انجوائے کرنے والا تھا۔ ساتھ ساتھ جو بوتلیں پانی کی لائی تھی سمیرا وہ بھی کسی کسی گاڑی میں پکڑا دیتی اور لوگ شکریہ کے ساتھ پانی لیکر آگے چلے جاتے۔ باقی فیمیلیز جو وہاں ویلکم کرنے کے لیے موجود تھیں وہ بھی اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ لیکر آئے تھے، کسی کے پاس پیپسی کی بوتلیں تھی، کسی کے پاس کولڈ سینڈویچ، کوئی برگر، کوئی بریڈ کوئی کچھ تو کوئی کچھ لیکر آیا ہوا تھا اور آنے والوں کو وہ تھما دیا جاتا۔ ہم تقریبا 4 گھنٹے وہاں کھڑے رہے۔ میں نے خوب انجوائے کیا، پارٹی نغمے سن کر بھی اچھا لگتا اور اس پر لڑکوں کا ڈانس ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب لوگ ایکدوسرے کو جانتے ہیں اور ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاست میں لگاو نہ ہونے کے با وجود میں یہ ضرور کہوں گی کہ مجھے یہ سب دیکھ کر اچھا لگا۔ لوگوں کی نظروں میں ایکدوسرے کے لیے احترام اور محبت کے جذبات تھے۔ اور میرے لیے بہت حیران کن بات تھی کہ لوگ کسطرح اپنے گھروں سے فیمیلیز کے ساتھ ویلکم کرنے نکلے ہیں اور ساتھ میں آنے والوں کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی لائے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ مسلسل 35 سے 40 گھنٹوں سے سفر میں ہیں۔ 4 گھنٹوں کے دوران کوئی 600 سے 800 ک قریب کاریں گزریں تھیں وہاں سے اور بیچ میں کچھ بسیں علامہ طاہر القادری صاحب کی جماعت عوامی تحریک کی بھی تھیں۔ رات کے 1 بچ چکے تھے پانی کی بوتلیں بھی ہم تقسیم کر چکے تھے اور بارش بھی کافی کم ہوگئی تھی۔ اب ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور گھر کی طرف چل دیے۔ رات کے 2 بجے گھر پہنچے اور میں جاتے ہی سوگئی جب کہ سمیرا ٹی وی لگا کر بیٹھ گئی۔
صبح آنکھ کھلی تو میں فریش ہونے کے لیے نہانے چلے گئی۔ نہا کر نکلی تو سمیرا بھی نیند پوری کرکے اٹھ چکی تھی اور وہ بھی فریش ہونے کے لیے چلی گئی۔ جب وہ نہا کر نکلی تو اسنے اپنا جسم تولیے سے صاف نہیں کیا تھا ویسے ہی ایک باریک قمیص پہن لی تھی اور جسم گیلا ہونے کی وجہ سے قمیص اسکے جسم سے چپک گئی تھی اور اسکی باریک قمیص کے نیچے اسکے ممے واضح نظر آرہے تھے سمیرا نے برا نہیں پہنا تھا۔ یہ دیکھ کر میرا ایک بر پھر دل کیا سیکس کرنے کو۔ سمیرا نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کھاو گی تو میں نے کہا تمہیں کھاوں گی اور یہ کہ کر میں اسکی طرف بڑھی اسکے بیڈ پر گرایا اور خود اسکے اوپر لیٹ کر اسکو کسنگ کرنے لگی۔ اس نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا اور میرے ہونٹ چوسنے لگی۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھوں سے سمیرا کے ممے دبانا شروع کر دیے جو قمیص میں سے نظر آرہے تھے اور اسکے نپلز کا تناو بھی قمیص سے ہی واضح تھا۔ میں نے سمیرا کی قمیص اتارے بغیر ہی اسکے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور نپل کاٹنے لگی ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے دوسرا مما بھی دبانے لگی۔ وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی مگر اسکا جسم مکمل گرم ہو چکا تھا۔ اسکے جسم کی گرمی مجھے بھی محسوس ہورہی تھی کچھ دیر اسکے ممے قمیص کے اوپر سے ہی چوسنے کے بعد سمیرا نے مجھے اپنے اوپر سے ہٹا کر بیڈپر لٹایا اور خود بھی میرے اور آکر لیٹ گئی اور میری شرٹ کے بٹن کھول دی۔ میں نے نہانے کے بعد شرٹ اور ٹراوزر پہنا تھا،، میری شرٹ کے بٹن کھولنے کے بعد اسنے میرے مموں کو برئیزیر کی قید سے بھی آزاد کیا اور میرے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ وہ بہت بیتابی کے ساتھ میرے ممے چوس رہی تھی اور اپنے دانتوں سے کاٹ بھی رہی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بچہ بہت بیتابی سے میرے پستانوں سے دودھ پی کر اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہو۔ میرے مموں سے دل بھرا تو ایک بار پھر اس نے میرے ہونٹوں کا رس پینا شروع کر دیا۔ ہماری زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھی کبھی ہم ایکدوسرے کی زبان چوستے تو کبھی ہونٹ چوستے۔ اتنے میں سمیرا نے خود ہی اپنی قمیص اور شلوار اتاری اور میں نے بھِی اپنی شرٹ اور ٹراوزر اتار دیا۔ اور سمیرا کی الماری سے مصنوعی لن نکال لائی جو اس دن سیکس کے بعد سمیرا نے لاک میں نہیں رکھا تھا۔ مصنوعی لن میں نے سمیرا کو دیا جو اسکو منہ میں لیکر گیلا کرنے میں مصروف ہوگئی اور میں خود سمیرا کی ٹانگیں سائیڈ پر پھیلا کر اسکی پھدی چاٹنے لگی۔ کافی دیر پھدی چاٹنے کے بعد سمیرا نے لن مجھے پکڑایا اور میری ٹانگیں اٹھا کر میری چوت میں اپنی زبان گھسا دی۔ میں نے لن منہ میں لیا اور اپنی چوت سمیرا سے چٹوانے میں مصروف ہوگئی۔ مزے کی شدت سے میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھی٫ سمیرا کی زبان میری چوت کے لبوں کو کھول کر اندر کی سیر کر رہی تھی اور اسکا ایک ہاتھ میرے مموں کہ مسل رہا تھا اور میرے منہ میں لن بھی تھا۔ سمیرا کبھی میری چوت کو اپنی زبان سے چاٹتی تو کبھی اپنی زبان میری گانڈ پر رکھ دیتی۔ پھر سمیرا نے میری ٹانگیں اور کھولیں اور میری گانڈ پر تھوک پھینک کر گانڈ کے اوپر زبان سے تھوک مسلنےلگی۔ کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد سمیرا نے اپنی بڑی انگلی میری گانڈ میں داخل کر دی۔ جس سے میری ہلکی سے چیخ بھی نکلی مگر مزہ بھی بہت آرہا تھا۔ سمیرا نے مجھے کہا کہ لن کے اوپر تھوک لگا کر اسکو چاٹوں اور پھر لن سمیرا کو دے دوں۔ میں نے ایسے ہی کیا، سمیرا نے گیلے لن کا ٹوپا میری گانڈ پر رکھا اور اندر گھسانے کی کوشش کرنے لگی۔ گانڈ کا سوراخ چونکہ تنگ ہوتا ہے اور یہ لن بھی عام لن سے تھوڑا موٹا تھا اسلیے گانڈ میں ڈالنے میں مشکل ہو رہی تھی، میں نے اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر پھیلا لیں اور سمیرا نے بھی تھوڑی مزید کوشش کی تو لن میری گانڈ میں چلا گیا۔ اب سمیرا لیٹ گئی اور اسکا منہ میری گانڈ کے ساتھ تھا اور لن دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر وہ میری گانڈ مار رہی تھی۔ میں مزے کی شدت سے سسکیاں نکال رہی تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی چدائی کرنے بعد سمیرا اٹھی اور میری ٹانگیں اٹھا کر میرے سینے کے ساتھ لگا دیں اب لن میری گانڈ میں تھا اور میرے گھٹنے میرے سینے کے ساتحھ لگ ہوئے تھے، ۔ قریبا 7 انچ لن گانڈ سے باہر تھا اور اس پوزیشن میں لن کے باہر والے حصے کا رخ چھت کی طرف تھا۔ سمیرا نے میری طرف اپنی پیٹھ کی اور میری فولڈ ہوئی ٹانگوں پر اپنا ہلکا وزن ڈالتے ہوئے لن کا باقی حصہ اپنی پھدی میں ڈالنے لگی۔ اب پوزیسشن یہ تھی کہ میری گانڈ میں تقریبا 4 انچ لن تھا اور میرے گھٹنے میرے سینے سے جڑے ہوئے تھے، میرے اوپر سمیرا اپنی پیٹھ میری طرف کر کے بیٹھی تھی اور اسکی پھدی میں باقی کا لن تھا۔ سمیرا نے مجھے اپنی گانڈ سخت ٹائٹ کرنے کو کہا، میں نے لن کو مضبوطی کے ساتھ گانڈ میں پھنسا لیا تو سمیرا نے میرے اوپر آہستہ آہستہ اچھلنا شروع کیا، اب لن سمیرا کی پھدی میں آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا جس سے سمیرا کی سسکیاں بھی نکل رہی تھی۔ سمیرا خود ہی اپنی چدائی کرنے میں مصروف تھی۔ اس پوزیشن میں مجھے کافی تکلیف ہوری تھی کیونکہ ایک تو لن میری گانڈ میں تھا اور پھر سمیرا کا وزن میری ٹانگوں پر تھا لہذا کچھ ہی دیر بعد میں نے سمیرا کو اٹھنے کو کہا۔ وہ اٹھ گئی تو میں نے اسکو بولا ہ صوفے پر بیٹھ جائے۔ وہ صوفے پر بیٹھی تو میں نے اسکی ٹانگیں زیادہ نہیں کھولیں اور ایسے لی لن اسکی چوت میں گھسا دیا اور اندر باہر کرنے لگی۔ سمیرا بہت مزے سے لن سے لطف اندوز ہورہی تھی اور مجھے کہ رہی تھی اور تیز چودو مجھے اف ف ف ف ف فائزہ بہت مزہ آرہا ہے پورا لن ڈال دو میری پھدی میں میری پھدی پھاڑ دو آج۔ 12 انچ کا لن وہ پورا تہ نہیں لے سکتی تھی مگر میں نے 8 انچ تک لن اسکی پھدی میں گھسا دیا اور اندر باہر کرتی رہی۔ پھر اسکی پھدی سے لن کا کچھ حصہ باہر نکالا اور خود بھی صوفے پر ٹانگیں رکھ کر گھٹنوں کے بل سمیرا کی گود میں بیٹھ گئی۔ گود میں بیٹھ کر میں نے لن کے دوسرے سائیڈ والی ٹوپی اپنی پھدی پر ٹکائی اور ایک ہی جھٹکے میں جتنا بھی لن سمیرا کی پھدی سے باہر تھا وہ اپی پھدی میں لے لیا۔ اب میں سمیرا کی گود میں لن کے اوپر اچھل اچھل کر لن کو اندر باہر کر رہی تھی اور سمیرا بھِی نیچے سے اپنی گانڈ اٹھا کر لن کے گھسے اپنی پھدی میں مار رہی تھی۔ سمیرا چونکہ بیٹھی ہوئی تھی اس لیے اسکی سپیڈ سلو تھی اور میں اسکی گود میں تھی اور میں زیادہ آسانی کے ساتھ لن اندر باہر کر سکتی تھی اس لیے میری سپیڈ کافی تیز تھی۔
پورے کمرے میں سمیرا اور میری سیکس سے بھرپور آوازیں گونج رہی تھیں۔ اف ف ف ف ف ۔۔۔۔ آ آ آ آ آ آ ۔۔۔ ام م م م م م م م آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ ایسی بے ہنگم سی آوازوں سے پورا کمرہ ہم نے سر پر اٹھا رکھا تھا۔ 5 منٹ کی اس چدائی کے بعد میرا جسم تھوڑا سخت ہونے لگا اور مجھے محسوس ہوا کہ میری پھدی پانی چھوڑ دے گی تو میں نے اپنی سپیڈ میں اور اضافہ کر دیا اور چند جھٹکوں کے بعد ہی میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ گرم گرم پانی کچھ تو شمیرا کے پیٹ پر گرا اور کچھ اسکی پھدی پر گرا جس سے اسکی گرمی میں بھی اضافہ ہوا اور اس نے ہاتھ سے لن پکڑ کر خود ہی اپنی پھدی کی چدائی شروع کر دی۔ میں اب سائیڈ پر ہوکر سمیرا کے ممے چوس رہی تھی اور ایک ہاتھ سے سمیرا کی چوت کا دانہ سہلا رہی تھی جبکہ سمیرا ڈلڈو سے اپنی چوت کی چدائی کر رہی تھی۔ سمیرا کی چیخوں میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ اسکے 36 سائز کے ممے پوری طرح میں نے ہاتھوں سے دبا رکھے تھے اور اپنے منہ میں لینے کی کوشش کر رہی تھی جس سے سمیرا کی سسکیاں بلند ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ آخر کار سمیرا کی پھدی نے بھی ایک دم سے پانی چھوڑ دیا، جو کسی فوارے کی طرح صوفے اور کارپٹ پر پھیل گیا اور کچھ میرے ہاتھ پر بھی لگا جس سے میں سمیرا کی چوت سہلا رہی تھی۔ پانی نکلے کے کچھ دیر بعد تک سمیرا اسی طرح لن کو اندر باہر کرتی رہی اور پھر لن نکال کر میرے منہ میں ڈال دیا جسکو میں نے اچھی طرح چوس لیا۔ اور اپنا ہاتھ سمیرا کے منہ میں ڈال دیا۔ سمیرا نے میرے ہاتھ سے اپنی چوت کا پانی اچھی طرح صاف کیا اور اسکے بعد اپنے اپنے کپڑے پہن کر ہم نے ناشتہ کیا۔ کچھ دیر ٹی وی دیکھا پھر نہا کر دوبارہ سے کپڑے چینج کیے اور سمیرا مجھے لیکے تحریکِ انصاف کے جسلے کی طرف چل پڑی۔
0 Comments
Thanks