آخر اسکی مار ہی لی
دوستو
اگر آپ اسلام آباد رہتے ھیں تو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کی آئ ایٹ سیکٹر میں واقع
علامہ اقبال او پن یونیورسٹی ایک ویران جگہ پر واقع ہۓ
خاص کرسردیوں کی رات کے وقت یہ جگہ کافی ویران ہوتی تھی۔ جس وقت کی یہ بات ہے اُس
وقت یونیورسٹی کے سامنے درختوں کا کافی گھنا سلسلہ تھا –
یہ
ایک ایسی ہی سردیوں کہ رات تھی اور میں اپنی موٹر سائیکل پر اسی روڈ سے گزر رہا
تھا کہ مجھے دُور سے بایئک کے پاس ایک شخص کھڑا نظر آیا جو مجھے رُکنے کا اشارہ کر
رہا تھا اُس کے ساتھ ایک عورت بھی کھڑی تھی تھوڑا تھوڑا اندھیرا ہو نے کی وجہ سے
میں ان کو ٹھیک سے پہچان نہ سکا-
لیکن
جیسے ہی میری بایئک ان کی قریب پُہنچی تو میں نے ان کو پہچان لیا یہ ہمارے محلے
دار مسٹر اور مسز سلامت تھے اور محلے دار ہونے کی وجہ سے میری ان سے میری اچھی
خاصی سلام دعا تھی چنانچہ جیسے ہی میں ان کے پاس رُکا انہوں نے مجھے دیکھ کر
اطمینان کی سانس لی اور بولے شکر ھے کہ تم مل گۓ
ورنہ ہم کافی دیر سے کھڑے تھے ایک تو یہا ں پر ٹریفک بھی کافی کم ھے دوسرا جو ایک
آدھا یہا ں سے گزرا بھی تو اس نے رُکنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ تو میں نے ان سے
پوچھا انکل معاملہ کیا ھے ؟؟؟ تو وہ بولے معاملہ کیا ہونا ہے یار بایئک خراب ہو
گیا ہے اور پھر کہنے لگے یار اگر تم موٹر سائیکل کے بارے کچھ جانتے ہو تو کچھ کر
دو میں نے تو کافی مغز مارا ھے پر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چکر کیا ھے ؟؟ موٹر
سائیکل کے بارے میرا بھی علم بس واجبی سا تھا پر پھر بھی میں بایئک سے نیچے اُترا
اور اُسے سٹارٹ کرنے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔ پر کامیاب نا ہوسکا تب میں نے اپنی ہار
مان لی اور ان سے کہا کہ سوری سر جی یہ میرے بس سے باہر ھے آپ ایسا کریں میری
بایئک لے جایئں میں آپ کی بائیک ٹھیک کروا کے لے آؤں گا –
سلامت
صاحب نے رسمی سا انکار کیا لیکن چونکہ اُن کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھی اس لیۓ
میرے اصرار پر انہوں نے میرا بائیک لے لیا اور اسے سٹارٹ کر کے بیوی سمیت بیٹھ کر
چلے گۓ
لکین کچھ ھی دُور گۓ
ہوں گے کہ میری بائیک بھی پھٹ پھٹ کر کے رُک گئ-
انکل نے اُسے سٹارٹ کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود۔ اسی اثناء میں میں بھی ان کے بائیک سمیت وھاں پہنچ گیا اور وہاں جا کر رُک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ؟؟ تو وہ تھوڑا جُھنجھلا کر بولے یار آج کا دن بڑا منحوس ھے ہر کام ہی اُلٹا ہو رہا ھے دیکھو نا تمہارا بائیک اچھا خاصہ چل رہا تھا پر جیسے میرے پاس آیا یہ چلتے چلے اچانک رُک گیا اور اب چلنے کا نام ھی نہیں لے رہا یہ سُن کر میں نے اُن سے اپنا بائیک لیا اور 3،4 ککیں ماریں تو وہ سٹارٹ ہو گیا اور میں نے دوبارہ بائیک ان کے حوالے کرتے ہوۓ کہا کہ پلیز آپ لوگ جاؤ وہ فوراً بائیک پر بیٹھے اور روانہ ہو گۓ لیکن ابھی تھوڑی ہی دور گۓ ہوں گے کہ بائیک پھر رُک گئ سلامت صاحب نے دوبارہ ککیں مارنا شروع کیں پر وہ سٹارٹ نہ ہوئ اتنی دیر میں میں پھر ان کا بائیک لیۓ وہاں پُہنچ گیا تو دیکھا کہ سلامت صاحب دونوں ھاتھ اپنی کمر پر رکھے بڑے غصوے سے میری بائیک کی طرف دیکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ مُنہ ہی مُنہ میں کچھ بُڑبُڑا بھی رہے تھے جیسے ہی میں ان کے پاس پُہنچا انہوں نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا اور بولے یار آج واقع ہی بڑا منحوس دن ھے دیکھو نا تم کک مارتے ہو تو یہ سالا سٹارٹ ہو جاتا ھے اور میری ککوں سے بھی اس کو کچھ
بھی نہیں ہوتا –
یہ
سُن کر میں نے ایک دفعہ پھر اُن سے بایئک لیا اور 3، 2 ککوں سے ہی سٹارٹ کر لیا
اور دوبارہ ان سے کہا کہ بیٹھیں پلیز اس سے پہلے کہ وہ بائیک پر بیٹھتے اُن کی
بیوی فوراً بولی
"جی نہیں میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی شاہ آپ پلیز مجھے گھر تک
چھوڑ آؤ " اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا سلامت صاحب فوراً بولے " ٹھیک ھے
شاہ آپ ہی عاصمہ جی کو گھر چھوڑ آؤ اور ویسے بھی مجھ سے آپ کا بائیک نہیں چل رھا
میرا بائیک میرے حوالے کر دیں میں اسے ٹھیک کروا کے گھر لے آؤں گا – میں نے تھوڑی
ہیچر میچر ۔۔۔ پر وہ نہ مانے اور پھر ان کے پُر زور اصرار میں اپنے بائیک پر بیٹھ
گیا –
اور اس کے ساتھ ہی میرے پیچھے عاصمہ جی (اُن کی بیگم )
بیٹھ گئ ۔ اس سے قبل کہ کہانی آگے چلے میں آپ سے عاصمہ جی کا تعارُف کرواتا چلوں-
عاصمہ جی ایک 35،36 سال کی خوبصورت دراز قد کی کشمیری عورت تھی ۔۔ اس کی بڑی
آنکھیں تھیں اور موٹے ممے تھے پر اُس کے بدن کی سب سے دلکش اور خاص بات عاصمہ جی
کی گانڈ تھی موٹی تو اس عمر میں تقریباً سب ہی لیڈیز کی گانڈ ہو جاتی ھے پر عاصمہ
کی گانڈ لاکھوں میں ایک تھی جس نے بھی ان کی گانڈ دیکھی وہ دل پکڑ کر بیٹھ گیا
چاہے
وہ گانڈ لور ھے یا نہیں ۔۔۔۔ چلتے ہوۓ
خاص کر وہ ایسے مٹک مٹک کر چلتی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔ نا پوچھ یار – ہماری مُحلے کے
تقریباً سارے ہی لوگ ان کی دلکش گانڈ کے عاشق تھے – اور یہ میری بڑی خوش قسمتی تھی
کہ آج یہ دلکش گانڈ والی خاتون میری پرانی پھٹ پھٹی پر میرے پیچھے بیٹھی تھی۔ گو
کہ اس خوبصورت خاتون کا نام عاصمہ ھی تھا مگر ان کا میاں چونکہ ان کو عاصمہ جی
کہتا تھا اس لیۓ
سارا محلہ ان کو عاصمہ جی کے نام سے یاد کرتا تھا-
جب میں اوپن یونیورسٹی سے تھوڑا سا آگے گیا تو اچانک
مجھے پیچھے سے عاصمہ جی کی آواز سُنائ دی ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔ ایک منٹ رکو پلیز۔۔۔!!!
میں نے فوراً بریک لگا دی اور ان سے پوچھا خیریت۔۔؟ تو وہ تھوڑا سا جھجھک کر بولی
" وہ بڑے زور کا سُو سُو (پیشاب) آیا ہے۔۔ میں نے بڑی دیر سے روکا ہوا تھا پر
اب یہ کام میری برداشت سے باہر ہو گیا ہے تم رکو میں بس ابھی آئ ۔۔ انہوں نے یہ
کہا اور جلدی سے یونیورسٹی کے سامنے اندھیرے میں گھنے درختوں کی طرف غائب ہو گئ-
اور میں بائیک پر ہی بیٹھا ان کا انتظار کرنے لگا – بمشکل ایک آدھ منٹ ہی گزرا ہو
گا کہ مجھے عامصہ جی کی چیخ سنائ دی۔۔۔ اُو۔۔ئ۔۔ ئ۔۔۔ ماں۔۔۔ سانپ ۔۔۔۔ سانپ۔۔۔
شاہ جلدی آؤ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ھے۔۔۔ یہ سُن کر میرے تو حواس ہی گُم ہو گۓ
اور میں بھاگتا ہوا درختوں کی طرف چلا گیا پر اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں
کچھ دکھائ نہ دیا چنانچہ اب میں اُتنی یہ جلدی سے واپس گیا اور ھیڈ لائیٹ فُل پہ
کر کے بائیک جاۓ
حادثہ کی طرف لے گیا –
جیسے
ہی میرا بائیک عاصمہ جی کے قریب پہنچا تو میں نے ہیڈ لائیٹ کی روشنی میں دیکھا کہ
ان کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور ان کی شلوار ان کے گھٹنوں سے نیچے زمین پر پڑی
تھی اور وہ بڑی خوف زدہ نطروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی مجھے دیکھ کر انہوں نے
اپنی پیٹھ کی طرف اشارہ کیا اور بولی " شاہ مجھے یہاں پر سانپ نے کا ٹا
ھے" اور میں فوراً اُن کی پیٹھ پر سانپ کے کاٹنے کا منظردیکھنے کے لیۓ
جھکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کی موٹی گانڈ کی موری کے بلکل ساتھ ایک بڑا سا
چیونٹا چپکا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی گا نڈ کا وہ حصہ خاصہ سُرخ ہو چکا تھا
جیسے ہی میری نطر اُس بڑے سے چیونٹے پر پڑی میں نے شُکر کا سانس لیا اور عاصمہ جی
سے بولا کہ آپ کو سانپ نے نہیں بلکہ ایک بڑے سے چیونٹے نے کاٹا ہے لیکن اُن کو
میری بات کا یقین نہیں آیا اور بولی پلیز اچھی طرح دیکھو کہ مجھے بڑی شدید جلن ہو
رہی ہے عاصمہ جی نے یہ کہا اور اپنا منہ دو سری طرف کر کے پوری گانڈ میری طرف کر
دی اور خود رکوع کے بل جھک گئ-
لو
جی میری تو عید ہو گئ کہ اب میرے سامنے ایک بہت ہی بڑی زبردست موٹی نرم اور گوری
گانڈ تھی جس کا میں اچھی طرح جائزہ لے رہا تھا ان کی چوت سے پیشاب کے کچھ قطرے
ابھی بھی گر رہے تھے پر جو خاص بات میں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہون وہ اُن کی گانڈ
کی موری تھی جو عام موری سے کھچ زیادہ ہی کُھلی تھی- (شاید عاصمہ جی نے گانڈ زیادہ
مروائ تھی ) اتنی جاندار گانڈ دیکھ کر میرے تو منہ میں پانی آ گیا اور میں ان کی
گانڈ کو دیکھ کر پاگل ہوا جا رہا تھا اور بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کر رہا تھا۔۔
گانڈ کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد میں نے اس جگہ کو دوبارہ دیکھا جہان ابھی تک
چیونٹا چپکا ہوا تھا میں نے میں نے چیونٹے کو دو انگلیوں کی مدد سے وہاں سے ہٹایا
اور متاثرہ جگہ پر تھوڑا مساج کیا اور پھر نہ چاہتے ہوے بھی میں نے اپنی ایک انگلی
ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں داخل کر دی ۔۔ کچھ سکینڈ تک انگی ان کی موری میں
گھمائ اور پھر نکال لی اسکے بعد میں نے مرا ہوا چینونٹا ان کو دکھا کر بولا سانپ
شانپ کوئی نہیں تھا عاصمہ جی بلکہ آپ کے وہاں ایک بڑے سے چیانٹے نے کاٹا تھا اور
یہ رہا وہ چیونٹا اور ان کو چیونٹا دکھا دیا جسے دیکھ کر وہ تھوڑی سی نارمل ہو گئ
اور بولی جلدی سے یہاں سے نکلو شاہ کہ مجے بڑا ڈر لگ رہا ھے-
اور
انہوں نے جلدی سے شلوار پہنی اور میرے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئ اور ھم ان کے گھر کی
طرف چل پڑے ۔۔ مرا ہوا چیونٹا دیکھ وہ کافی حد تک نارمل ہو گئ تھی اور پھر راستے
بھر میں وہ مجھ سے سانپ بچھو وغیرہ کی باتیں کرتی رہی پر میرے دھیان میں ان کی
موٹی گانڈ خاص کر بڑی سی موری آتی رہی ۔۔۔۔
اس طرح باتوں باتوں میں کب ان کا گھر آیا پتہ ہی نہیں
چلا – جیسے ہی ھم ان کے گھر کے قریب پہنچے تو میں نے عاصہ جی کو بائیک سے آتارا
اور جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگی بنا چاۓ
کے تم کیسے تم جا سکتے ہو۔۔ ؟؟؟؟ اس لیۓ
اپنی بائیک کو لاک کرو اور میرے ساتھ گھر چلو اورخود گھر کا تالا کھولنا لگی میں
نے بھی بائیک کو لاک کیا اور پھر ان کے گھر داخل ہو گیا وہ مجھے ساتھ لے کر ڈرائنگ
روم میں لے گئ وہاں مجھے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا تو میں نے ان سے پوچھا کہ
عاصمہ جی گھر کے باقی لوگ کہا ں ہیں۔۔؟؟ تو وہ کہنے لگی سب لوگ ایف سکس میں برکت
صاحب کے بھتیجے کی شادی پر گۓ
ہوۓ
ہیں اور مزید کچھ دن وہاں ہی رکیں گے میں اور برکت صاحب بھی صبع سے وہاں ہی تھے
پھر کہنے لگی تم بیٹھو میں ابھی چاۓ
لے کر آتی ہوں اور وہ کچن میں چاۓ
بنانے چلی گئ – کوئ 15،20 منٹ کے بعد جب وہ واپس آئ تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی
ٹرے تھی جس میں 2 کپ چاۓ
کے ساتھ 2،3 پلیٹیں اور بھی تھیں جو بسکٹ اور دیگر لو ازمات سے بھری ہوئ تھیں یہ
دیکھ کر میں نے کہا عاصمہ جی آپ نے تو بڑا تکلف کر دیا تو وہ بولی ارے تکلف کیسا
اسی بہانے تئم کچھ دیر بیٹھو گے تو سہی نہ -
پھر
انہوں نے تپائ پر ٹرے رکھی اور میرے سامنے بیٹھ گئ اور ہم چاۓ
کے ساتھ ساتھ دوبارہ سانپ بچھو وغیرہ کے کاٹنے اور اسی حادثے کے بارے میں باتیں
بھی کرنے لگے تب باتوں باتوں میں مین نے اُن سے کہا یقین کریں عاصمہ جی آپ کی
دلدوز چیخ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی شکر ھے کہ وہاں سانپ نہیں تھا ورنہ بڑی
مشکل ہو جاتی۔اور میں نے پھر سے اپنی بات دھراتے ہوے کہا کہ عاصمہ جی آپ کی اُس
چیخ نے تو میرا پورے 2 کلو خون خشک کر دیا تھا-
میری بات سُن کر عاصمہ جی تھوڑی سے کھسیانی ہو گئ اور
بولی " آئ ایم سوری شاہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بعد میں آپ نے میری چیخ کا پورا فائدہ
بھی اُٹھا یا تھا " اور پُر اسرار طریقے سے مُسکرا دی – یہ سُن کر میں نے
قدرے حیرانی سے ان سے پوچھا کہ " عاصمہ جی میں نے کون سا فائیدہ اُٹھایا تھا
۔۔؟؟؟؟؟ تو اُنہوں نے تُرنت ہی جواب دیا اور کہنے لگی زیادہ سمارٹ بننے کی کوئ
ضرورت نہیں ھے مسٹر شاہ ۔۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں کس فائیدے کی بات
کر رہی ہوں اور تب اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے سانپ کا کا ٹا چیک کرتے وقت اپنی
ایک انگی ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں ڈالی تھی وہ لحمہ یاد کر کے میں نے بڑی
شرمند گی محسوس کی اور پھر فوراً ہی اُن سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگ لی اور
بولا اس بات کے لیۓ
ویری ویری سوری عاصمہ جی ۔۔۔
میری
معافی کی بات سن کر وہ بولی زیادہ جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ " اٹس اوکے
" اور مسکُرا دی۔
جب عاصمہ جی نے" اٹس او کے" کہا تو یہ سُن کر
میری پینٹ میں تھوڑی ہلچل مچی اور لن صاحب نے ہلکہ سا سر اٹھا کر مجھ سے کہا ۔۔۔
میڈم کی بات سمجھ سالے ۔۔۔ لیکن میں لن کے بتانے سے پہلے ہی کافی کچھ سمجھ چکا تھا
اور بات کی تہہ تک جانے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری تھی چنانچہ یہ سوچ کر
میں نے اپنے چہرے پر تھوڑی تشویش ظاہر کی اور بولا ۔۔ یہ سلامت صاحب ابھی تک نہیں
پہنچے ۔۔۔ ؟؟ تو وہ بولی اصل میں انہوں نے رات گۓ
گھر آنا ھے کہ شادی کے سلسلہ میں کافی کام اُن کے زمہ تھے اُن کی یہ بات سُن کر
میں کافی حد تک مطمئین ہو گیا تھا سو اب میں نے دانہ پھیکنے کا ارادہ کر لیا اور
بولا ۔۔ عاصمہ جی کیا ابھی بھی آپ کو درد ہو رہا ھے ؟ وہ فوراً میری بات کو سمجھ
گئ اور بولی نہیں شاہ جی درد تو نہیں البتہ جلن بڑی سخت ہو رہی ہے ۔۔۔ یہ سننا تھا
کہ جھٹ میں نے اپنی خدمات پیش کرے ہوے بولا اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں متاثرہ
حصہ پر دوبارہ مساج کر دوں۔۔؟ وہ منہ سے کچھ نا بولی پر اپنی جگہ سے اُٹھ کر آ کر
میرے سامنے کھڑی ہو گئ-
ان کو دیکھ کر میں بھی اُٹھ کر عین اُن کے سامنے کھڑا ہو
گیا اور ہم کچھ دیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے کچھ دیر بعد
وہ ہلکی سی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ ہاں تو شاہ تم کیا کہہ رہے تھے ۔۔؟؟ تو میں نے
جواب دیا کہ میں کہ رہا تھا کہ آپ کے وہاں مساج کر دوں ؟؟ اور ساتھ ہی میں جی کڑا
کر کے اپنا ایک ہاتھ ان کی بڑی سی گانڈ پر لے گیا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس پر
ہلکہ سا ہاتھ پھیر دیا پھر میرا ہاتھ تھوڑا اور آکے بڑھا اور میرا ہاتھ ان کی قمیص
کے اندر چلا گیا وہ کچھ نہ بولی بس چپ چاپ میرے طرف دیکھتی رہی پھر میرا ھاتھ
آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ان کی قمیص کے اندر چلا کیا اور پھر میں نے جلد ہی محسوس کر
لیا کہ عاصمہ جی کی شلوار میں " آزار بند " نہیں بلکہ الاسٹک ہے تب میں
ان کے اور قریب گیا اور بڑے ہی پیار سے ان کی شلوار کھیچ کر ان کے گھٹنوں تک کر دی
اور اب میرا ہاتھ ان کی ننگی گانڈ پر تھا اور میں وہاں بڑے ہی پیار سے مساج کر رہا
تھا۔۔ پھر میں تھوڑا گھوم کر ان کے پیچھے کی طرف چلا گیا اور ان کو کمر سے پکڑ کر
تھوڑا جھکا دیا اور اس سُرخ جگہ جہاں چیونٹے نے کاٹا تھا وہاں ہر اپنے ہونٹ رکھ دیۓ
اور بولا ۔۔۔۔ عاصمہ جی ۔۔۔ یہاں چیونٹے نے کاٹا تھا نہ ۔۔
اور
ان کی وہ جگہ چُوم لی اور پھر بڑے ہی رومانٹک لہجے میں ان سے پوچھا۔۔۔۔۔ عاصمہ جی
۔۔۔ یہاں اب بھی جلن ہو رہی ھے۔؟؟؟ تو وہ سرگوشی میں بولی بے شک چیونٹے نے یہاں ہی
کاٹا تھا پر جلن یہاں نہیں۔۔۔۔ بلکہ تھوڑا آگے ہو رہی ہے یہ سن کر میں اپنے ہونٹ
تھوڑا اور آگے لے گیا اور پھر وہا ں ہونٹ رکھ کر بولا ۔۔ یہاں جلن ہورہی ھے تو وہ بولی
نہیں تھوڑا اور آگے اب میں سمجھ گیا اور میں اپنے ہونٹ ان کی چوت کے تھوڑا اوپر
رکھ دیۓ
اور پوچھا ۔۔۔ عاصمی جی یہاں ۔۔؟؟؟؟ تو وہ بولی نہیں تھوڑا اور نیچے اور اب میں نے
ان کو تھوڑا اور جھکایا اور انہوں نے خود ہی اپنی ٹانگیں کھول کر دونوں ھاتھ صوفے
پر رکھ دیۓ
اور میں نے اپنی زبان نکال کر ان کی چوت پر رکھ دی اور بولا یہاں جلن ہو رہی ھے تو
وہ بولی ۔۔۔۔ ہاں شاہ ۔۔۔۔ یہاں جلن ہو رہی ھے یہ سن کر میں نے اپنی زبان ان کی
پھدی میں ڈال دی اور اسے چاٹنے لگا
۔۔۔۔اور عاصمہ
جی نے ایک تیز سسکی لی۔۔ آہ ۔۔ ہ۔۔ہ ۔۔۔ام م م ۔۔۔۔ ان کی چوت کافی گرم اور گیلی
تھی چنانچہ میں نے زبان ان کی گیلی چوت میں داخل کی اور اسے چاٹنے لگا ۔۔۔ ان کی
چوت کا گرم پانی مجھے اپنی زبان پر بڑا اچھا لگ رہا تھا اور چوت کی دیواریں اندر
سے بڑی چکنی اور گرم تھیں اور میں بڑے مزے سے اپنی زبان ان کی چوت میں ان آؤٹ کر
رہا تھا کافی دیر بعد اچانک انہوں نے پیچھے کی طرف میرے منہ کر دبانی شروع کر دی
اور چوت کو میرے منہ پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کے جسم نے
جھٹکے کھاۓ
اور ان کی چوت نے اپنا سارا گرم گرم پانی میرے منہ پر چھوڑ دیا ۔۔۔ عاصمہ جی کی
پھدی کا پہلا پانی میرے منہ میں آ گیا تھا -
کچھ
دیر تک تو عاصمہ جی یوں ہی اپنی پھدی میرے منہ کے ساتھ رگڑتی رہی پھر انہوں نے
اپنے دونوں ہاتھ صوفے سے ہٹا لیۓ
اور سیدھی کھڑی ہو گئ اسکے ساتھ ہی وہ میری طرف مُڑی اور مجھے بازؤں سے پکڑ کر
کھڑا کر دیا اور پھر انہوں نے ایک عجیب کام کیا وہ یہ کہ انہوں میرے منہ پر لگی
۔۔۔ منی کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا ان کی زبان کسی وائپر کی طرح میرے منہ
پر چلتی رہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جو تھوڑی بہت منی میرے منہ پر لگی رہ گئ تھی
ان کی زبان نے وہ سب صاف کر دی اور پھر انہوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی
اور اب میں ان کی نمکین زبان چوسنے لگا ۔ زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میرا ایک ہاتھ
ان کے موٹے ممے پر بھی چلا گیا اور میں بڑے پیار سے ان کو دبانے لگا انہوں نے بھی
پینٹ کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑاور اسے دبانے لگی
پھر انہوں نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا اور بولی شاہ
اپنے کپڑے اُتارو میں تم کر ننگا دیکھنا چاہتی ہوں اس کے ساتھ ہی انہون نے اپنی
قمیض بھی اتار دی شلوار تو پہلے سے ہی اتری ہوئ تھی اب ان کے جسم پر صرف برا ہی رہ
گئ تھی اس کے بعد انہوں نے وہ بھی اتار دی اب وہ میرے سامنے بلکل ننگی ہو گئ تھی
میں ان کو ننگا دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ میں اپنے کپڑے ا تارنا بھول ہی گیا وہ
تو عاصمہ جی اگر یاد نا دلاتی تو میں ابھی بھی ویسے کا ویسا ہی کھڑا رہتا جونہی
عاصمہ جی نے اپنی برا اُتار کر میری طرف دیکھا تھوڑا حیران ہو کر بولی ۔۔۔۔ ہا ۔۔
شاہ تم ابھی ننگے نہیں ہوۓ
؟؟؟؟؟؟ ان کی یہ بات سن کر میں نے بجلی کی سی تیزی سے اپنے سارے کپڑے اتار دیۓ
اور ننگا ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا-
ان
کی نظریں مسلسل میرے لن پر یہ لگی ہوئ تھی جونہی میں پورا ننگا ہو کر ان کی طرف
بڑھا تو وہ بڑی ستائیشی نظروں سے میرے لن کو دیکھ رہی تھی فوراً آگے بڑھی اور میرے
لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی شاہ تمہارا لن بڑا زبردست ہے لگتا تم نے آرڈر پر
بنوایا ھے اور ھنس پڑی ۔۔۔۔۔ پھر وہ نیچھے صوفے پر بیٹھ گیئ اور لن پر کس کر کے
بولی سچ میں تمھارا لن بڑے کمال کا ھے اور پھر ٹوپے پر کس دینے کے لیۓ
جیسے ہی جھکی میرے لن سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ نکلا جسے انہوں نے نیچھے گرنے سے
پہلے ہی اپنے منہ میں لے لیا اور ۔۔۔۔۔ بولی ۔۔۔ تمہاری مزی بڑی نمکین اور مزے کی
ھے ۔۔۔ مجھے اور بھی دو تو میں نے جواب دیا آپ مزی کی بات کرتی ہو مین آپ کو منی
کا پورا گلاس پلاؤں گا آپ بس میرا لن چوسو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ
سن کر اُس نے میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اور مست ہو کر چوسنے لگی – وہ میرا لن
چوس رہی تھی اور اچانک میری نطر عاصمہ جی کی موٹی گانڈ پر پڑ گئ تو میں نے کہا
عاصمہ جی !!! مجھے سرسُوں کا تیل تو لا دیں تو انہوں نے لن سے منہ سے ہٹا کر مجھ
سے پوچھا ۔۔۔۔ تیل ۔۔۔ اُس کا کیا کرو گے۔۔؟؟ تو میں نے کہا کہ مجھے آپ کی گانڈ
مارنے کے تیل کی ضرورت ہو گی ۔۔ تو وہ بڑے لاڈ سے بولی ۔۔۔ شاہ ۔۔۔ تم نے تو میری
گانڈ کا ہہت اچھی طرح سے دیکھا ہے اس کے لیا تیل کی کوئ ضرورت نہیں پڑے گی بس
تھوڑا سا تُھوک لگا دینا کام چل جاۓ
گا۔۔۔ تاب میں نے اُن سے کہا تو آپ گھوڑی بن جائیں میں آپ کی گانڈ مارنا چاہتا ہوں
تو وہ بولی ۔۔۔۔ یار ۔۔۔ پہلے تھوڑا سا لن تو چوسنے دو پھر جو مرضی ھے کر لینا اور
دوبارہ لن پر سر جھکا دیا اور لن اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی۔۔۔ پھر کچھ دیر تک
وہ میرے لن کو چوستی رہی پھر اُٹھی اور صوفے پر دونوں ھاتھ ٹکا دیۓ
اور گانڈ میری طرف کر کے بولی تمھارا لن میں نے چوپا لگا لگا کر گیلا کر دیا ھے اب
تم میری گانڈ پر تھوک لگا کر اسے اچھی طرح چکنا کر لو اور پھر اپنا لن ڈال کار
ہلکے ہلکے دھکے لگانا جب تمھارا لن میری گانڈ میں پوری طرح ایڈجسٹ ہوجاۓ
تو بے شک زور زور سے دھکے مار لینا-
آب
میں اپنا منہ ان کی گانڈ کے بلکل قریب لے گیا اور اک بڑا سا تھوک کا گولا ان کی
گانڈ کی موری پر پھینکا وہ بولی ہاں ٹھیک ہے اب یہ تھوک میرے موری کے اندر اور
باہر اچھی طرح مل دو اور میری موری پر تھوڑا سا مساج بھی کر دو
اور پھرمیں نے انگلی کی مدد سے پہلے تو اچھی طرح ان کی
موری پر مساج کیا پھر تھوڑا سا تھوک اور پھینک کر اسے اچھی طرح ان کی موری کے اندر
اور باہر مل دیا ۔۔۔
پھر میں نے عاصمہ جی کی سرگوشی سنی وہ کہہ رہی تھی یس س
۔۔۔ شاہ۔۔۔۔ اب میری گانڈ مار لو ۔۔ ڈال دو اپنا لن۔۔۔ اور میری گانڈ مار لو۔۔
----
اور پھر بولی ایک منٹ روکو پلیز اور پھر اپنے منہ سے بہت
سارا تھوک نکال کر میرے لن پر پھر سے مل دیا اور خاص کر میرے موٹے ٹوپے پر اچھی
طرح مساج کیا اور بولی ۔۔۔۔ اب کرو۔۔۔۔ اور میں نے اپنا ٹوپا ان کی موری پر رکھا
اور ھلکا سا ۔۔ دھکا مارا۔۔۔۔ بہت ہلکا ۔۔۔ تھوک سے تر ٹوپا ان کی گیلی گانڈ میں
تھوڑا سا اندر چلا گیا ۔۔۔ اور عاصمہ نے ایک آہ بھری ۔۔آہ۔ ہ۔ہ ۔۔۔ اُف۔۔۔ ف۔۔۔ف۔
اور میں نے ایک گرم ۔۔۔ سلکی اور بہت نرم گانڈ کا رنگ اپنے ٹوپے کے گرد کسا ہوا محسوس
کیا ۔۔۔ ان کی گانڈ بڑی گرم اور مست تھی سو میرے لن کہ سواد آگیا اور میں نے اور
گھسا مارا اور میرا لن جڑ تک ان کی گانڈ میں اُتر گیا پورا لن گانڈ میں جاتے ہی
عاصمہ نے ایک چییخ ماری اور بولی ۔۔۔۔ آف ۔۔۔ شاہ تیرا لن ہے کہ مزہ کا "
ٹرک" ۔۔۔۔۔ یار مجھے بڑا مزہ آرہا ھے ۔۔۔۔ اب اور زیادہ زور دار پٹائ کر نا
میری گانڈ کی ۔۔۔۔ اور میں نے ان کی گانڈ کا زور دار پٹائ کرنی شروع کر دی اور اب
کمرہ۔۔۔ تھپ تھپ۔۔۔ تھپ اور عاصمہ جی کی سسکیوں سے گونجنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔
عاصمہ
بڑی ہی مست لیڈی تھی میرے ہر سٹورک کا بھر پور جواب دیتی تھی جس سے مجھے اور بھی
جوش چڑھ جاتا اور میں پہلے سے بھی زیادہ زور سے ٹھوکریں مارنا شروع کر دیتا ۔۔۔ اب
میں نے دیکھا کہ میرے دھکوں سے عاصمہ کی سانس چڑھ گئ تھی اور وہ تیزی سے سانس لے
رہی تھی پھر اچانک انہوں نے اپنا ھاتھ پیچھے کی طرف کیا اور بولی ۔۔۔ ایک ۔۔ منٹ
۔۔۔ ایک منٹ رکو پلیز ۔۔۔۔۔ اور خود تھوڑا آگے ہوگئ جس سے میرا لن ان کی گانڈ سے
باہر آ گیا تھا اور میں نے دیکھا کہ میرے طاقتور دھکوں کی وجہ سے ان کی پوری گانڈ
سُرخ ہو گئ تھی تب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ کہنے لگی پانی ۔۔۔ پانی
۔۔۔ اور میں نے سامنے پڑے جگ سے ایک گلاس پانی بھر کر دیا تو وہ ایک ہی سانس میں
سارا پانی پی گئ اور بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور دے دو پلیز اور میں نے دوسرا گلاس
بھی دیا تو وہ پی کر عاصمہ جی نے میری طرف دیکھا اور ایک بھر پور سمائل پاس کی اور
بولی ۔۔۔۔ کیا جم کر گانڈ ماری ھے تم نے۔۔۔
یہ
سُن کر میں نے ان سے کہا کہ عاصمہ جی گانڈ ہوتی ہی جم کر مارنے کے لئے ھے اب اپ
دوبارہ سے گھوڑی بن جاؤ کہ مجھے اپ کی گانڈ ابھی اور بھی مارنی ھے تو وہ کہنے لگی
۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔ گانڈ نہیں تم اب میرے پھدی کی آگ بجھاؤ ۔۔۔ تو میں نے ان کی بات کاٹ
کر جواب دیا ۔۔۔ لیکن عاصمہ جی مجھے تو آپ کی گانڈ میں بڑا مزہ آرہا تھا تو وہ
کہنے لگی مزہ تو مجھ کو بھی بڑا آرہا تھا پر۔۔۔ کیا کروں ڈئیڑ۔۔۔ یہاں کی آگ اب
میرے بس سے باہر ہوتی جا رہی ھے ۔۔ پھر وہ صوفے پر بیھٹی اور اپنی دونوں ٹانگیں
کھول کر بولی ۔۔۔۔ دیکھو تو چوت کیسے پانی پانی ہو رہی ھے ۔۔۔ اور میں نے ان کی
چوت کی طرف غور سے دیکھا تو اُس میں سے واقعی پانی رس رس کر ان کی ان کی ٹانگوں سے
نیچے گر رہا تھا مجھے یوں دیکھتے دیکھ کر وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ کیا دیکھتے ہو ۔۔۔ میری
پھدی بلکل تیار ہے پھر میری طرف آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ جان ۔۔۔یہاں تم کو تھوک کی
بھی ضرورت نہیں پڑے گی ۔۔۔ اب میں نے ایک نطر ان کی چوت کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔
یہ تو ٹھیک ھے پر۔۔۔ مجھے آپ کی گانڈ کا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔
تو
وہ کہنے لگی بدھو ۔۔۔ تم کو یہاں گانڈ سے کہیں زیادہ مزہ آے گا ۔۔۔۔ تم ایک دفعہ
یہاں ڈالو تو سہی ۔۔۔۔ اور پھر بولی جلدی آ۔۔۔ نا ۔۔۔۔ اور میں ان کے پاس چلا گیا
انہوں نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنی چکنی پھدی کے سُوراخ پر رکھ کر بولی
۔۔ دھکا لگا۔۔۔ اور میں نے ایک دھکا لگایا تو لن بڑی آسانی سے ان کی چوت میں جڑ تک
اتر گیا ،،، اور ان کے منہ سے مزے کے مارے سسکی ۔۔۔ سی نکل گئ ۔۔
اُفف۔۔۔ف۔ف۔ف۔ف۔ف۔۔ف ۔۔۔۔ اور دبی دبی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ شاہ۔۔۔۔ مجھے چود۔۔۔۔
جیسے تم نے میری گانڈ میں فُل سپیڈ گھسے مارے تھے اس سے دوگنا سپیڈ سے اب میری چوت
مارو ۔۔۔۔۔ اور میں نے فُل سے بھی زیادہ سپیڈ سے گھسے مارنا شروع کر دیئے میرے ان
گھسوں نے اس کے نشے میں مزید اضافہ کر دیا اور وہ مسلسل مجھے ہلا شیری دیتی ری ۔۔
ہاں ۔۔۔ایسے ہی ۔۔۔۔مار ۔۔۔اور زور سے مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یس سسس س س۔۔۔ اور پھر
وہ ٹائیم بھی آ گیا کہ جب مجھے اپنی ٹانگوں میں جان ختم ہوتی ہوئ محسوس ہوئ اور
۔۔مجھے لگا کہ میں گیا۔۔۔۔۔۔۔
ادھر
عاصمہ بھی مجھ سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ آخری۔۔۔۔ گھسا فُل سپیڈ سے مارو ۔۔۔کہ میں نے
چھوٹنا ھے ۔۔۔۔ اور میں نے اپنی ساری توانائی اکھٹی کی اور ۔۔۔ آخری آخری ۔۔۔جھٹکے
پوری قوت سے مارے اور۔۔۔ پھر ہم دونوں ایک ساتھ ہی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ چھو ٹتے گۓ
چھوتٹے گۓ۔۔۔۔۔۔
چھوٹتے گۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments
Thanks